Today ePaper
Rahbar e Kisan International

ایران،امریکہ تنازعہ اور اوپیک

Articles , Snippets , / Sunday, February 9th, 2025

تحریر؛اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com

ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے کہا ہے کہ اگر اوپیک (Organization of the Petroleum Exporting Countries)اراکین متحد ہو جائیں تو نہ تو امریکہ کسی پر پابندی لگا سکے گا اور نہ دباؤ ڈال سکے گا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےکچھ دن پہلے ایران کو دھمکی دی تھی کہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی وجہ سےاس پر مزید پابندیاں لگ سکتی ہیں اور تیل کی برآمدات کو صفر بھی کیا جا سکتا ہے۔ایران کو مسلسل امریکی دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے دستبردار ہو جائے۔تہران کا کہنا ہے کہ وہ پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ایک بات واضح ہے کہ مزید پابندیاں ایران کو شدید خطرے سے دوچار کر دیں گی۔ایران کافی عرصہ سےپابندیوں کی زد میں ہے،اگر مزید پابندیاں لگتی ہیں تو اس کی معیشت ڈیفالٹ ہو سکتی ہے۔ایران کوشش کر رہا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو منہ توڑ جواب دیا جائے،لیکن اس کو ابھی تک کامیابی نہیں مل رہی۔سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اوپیک کے پاس اتنی طاقت ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا مقابلہ کر سکے؟اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیےاوپیک کی وضاحت ضروری ہے۔اوپیک تیل پیدا کرنے والے ممالک پر مشتمل ایک تنظیم کا نام ہے۔اس تنظیم میں الجیریا(الجزائر)،انگولا، انڈونیشیا،ایران،عراق ،کویت لیبیا،نائجیریا، قطر،سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور وینیزویلا شامل ہیں۔اوپیک کا بنیادی مقصد عالمی منڈی میں قیمت کو متوازن کرنا اور مناسب مقدار تک بڑھانا شامل ہے۔اوپیک کے اراکین ممالک کی فہرست پر نظر دوڑائی جائے تو آسانی سے سمجھ آجاتا ہے کہ وہ امریکہ یا مغرب کامقابلہ آسانی سے نہیں کر سکتے۔ایران اور وینیزویلا امریکی حکومت کے خلاف ہیں اورباقی ممالک امریکی دباؤ کا شکار ہیں۔عراق پر امریکہ کئی سال پہلےحملہ کر چکا ہےاور عراقی تیل کو آسانی سے کنٹرول کر سکتا ہے۔تیل پیدا کرنے والا بڑا ملک سعودی عرب بھی امریکی اثرورسوخ کا شکار ہے۔تقریبا سارے ممالک امریکی پریشر برداشت کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔اوپیک کا قیام 1960 میں ہوااور 70 کی دہائی میں ایک طاقتور تنظیم کے طور پرابھرا۔70 کی دہائی میں اپنے جوبن دکھا کر80 کی دہائی میں کمزوری کاشکارہوگیا۔او پیک کی سب سے بڑی مجبوری یہ ہے کہ اراکین ممالک کے درمیان نا اتفاقی اور عداوت پائی جاتی ہے۔دوسری مجبوری دفاعی لحاظ سے کمزور ہونا بھی ہے۔تیسری بڑی مجبوری ڈالر میں تیل کو فروخت کرنا ہےاور کسی دوسری کرنسی میں فروخت کرنا ممنوع ہے۔ڈالر کی شرط لگانا امریکی طاقت کا اظہار ہے،حالانکہ کئی کرنسیاں ڈالر کے مقابلے میں مضبوط ویلیو رکھتی ہیں لیکن ان کرنسیوں سےتیل کی خریداری نہیں کی جا سکتی۔کویتی دینار ڈالر کے مقابلے میں کئی گنازیادہ ویلیو رکھتا ہےلیکن ڈالر کے مقابلے میں دینار کی ساکھ بہت ہی کمزور ہے۔یہی حال دوسری کرنسیوں کا بھی ہے۔اوپیک پردباؤ ڈال کرکنٹرول حاصل کیا جاچکا ہے۔ایران اور وینیزویلا مسلسل کوشش کر رہے ہیں کہ امریکہ سےآزادانہ فیصلے کیے جائیں لیکن ان کی کوششیں ناکام ہو رہی ہیں،کیونکہ مخالفت اور نااتفاقی آڑے آرہی ہے۔
ایرانی صدر نےاوپیک کے سیکرٹری جنرل ہثیم الغیث کے ساتھ ملاقات کی اور اس بات کااعادہ کیا کہ اگر اوپیک کے اراکین متحد ہو جائیں اور مل کر کام کریں گے توامریکہ ان پر پابندیاں اور دباؤ نہیں ڈال سکے گا۔ایران کے وزیر تیل نے بھی کہا کہ عالمی منڈی کو غیر سیاسی کرنا توانائی کی سلامتی کے لیے اہم ہے۔تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک پر یک طرفہ پابندیاں عاِئد کرنے اور اوپیک پر دباؤ ڈالنے سے تیل اور توانائی کی منڈیوں کو غیر مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے صارفین کو بھی نقصان پہنچے گا۔یہ بہت ہی خدشے کی بات ہے کہ تیل کوکچھ مخصوص طاقتیں کنٹرول کر لیں۔عالمی طور پر معیشت کو زبردست نقصان پہنچے گا اور کچھ ممالک بری طرح رگڑے جائیں گے۔اوپیک میں شامل ممالک اگر ایک لائحہ عمل ترتیب دے دیں اور اس بات پر یکسو ہو جائیں کہ تیل کی فروخت ڈالر کی بجائے دوسری کرنسیوں میں بھی ہو سکے،تواس عمل سے امریکی دباؤ صفر ہو جائے گا۔ایران پر لگنے والی پابندیاں بھی عالمی توازن کوخراب کر رہی ہیں،ان پابندیوں کو بھی انسانی بنیادیوں پر دیکھا جائے۔جو ممالک مسائل کا شکار ہیں،ان کو بھی مواقع دیے جائیں کہ وہ اپنی معیشتوں کو مضبوط کر سکیں۔مشرق وسطی میں بد امنی کو امن میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہےاور جو ممالک مصائب کا شکار ہیں،ان کو بھی سنبھلنے کا موقع دیا جائے۔
ایران جس طرح کہہ رہا ہے کہ اوپیک کے اراکین متحد ہو جائیں تاکہ مقابلہ آسانی سے کیا جا سکے،یعنی تیل کو بطور ہتھیار استعمال کیا جائے۔تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا تصور تقریباپانچ دہائیاں پرانا ہے۔1973 میں مصر اور شام کے خلاف لڑے جانے والی جنگ میں اسرائیل کی حمایت کرنے کی وجہ سے تیل برآمد کرنے والے عرب ممالک نے سعودی عرب کی قیادت میں امریکہ اور اس کےاتحادیوں پر تیل کی برآمد پر پابندی لگا دی۔اس پابندی نے امریکی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ پوری مغربی معیشت متاثر ہوئی۔اس وقت دنیا تقریبا دو بلاکس میں تقسیم تھی،ایک کی قیادت روس کر رہا تھا اور دوسرے بلاک کی قیادت امریکہ کر رہا تھا۔امریکہ اور روس کے درمیان سردجنگ کا ماحول بن چکا تھا اس بات کے بھی خدشات تھے کہ یہ سرد جنگ کہیں جوہری جنگ میں تبدیل نہ ہو جائے۔دونوں ممالک کے پاس ایٹمی قوت موجود تھی اور اختلافات بھی بہت بڑےہوئے تھے،اگر وہ ایک دوسرے کے خلاف ایٹمی طاقت استعمال کر لیتے تو دنیا کا نقشہ بھی اور ہوتا۔بہرحال اس جنگ کا خطرہ ٹل گیا۔تیل کی بندش نے امریکہ میں کئی مسائل کھڑے کر دیے۔پٹرول پمپس پر طویل قطاریں لگ گئیں اور چند لیٹر تیل حاصل کرنا بھی مشکل ہو گیا۔تھوڑا سا تیل حاصل کرنے کے لیے مہینوں انتظار کرنا پڑتا تھا اور اس سے بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوا اورمعاشی صورتحال بھی خاصی خراب ہو گئی۔بعد میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے صورتحال بہتر ہوئی اور اب تقریبااوپیک ان کے کنٹرول میں ہے۔ایران اسی طرح کی کوشش کر رہا ہے کہ اب بھی تیل کو بطور ہتھیار استعمال کیا جائےتاکہ مسائل پر قابو پایا جا سکے۔تیل کے متبادل ذرائع بھی ڈھونڈے جا رہے ہیں اور گرین ہائیڈروجن منصوبہ بڑی تیزی سےکامیابی کی طرف گامزن ہے۔تیل پیدا کرنے والے ممالک اس بات سے خوفزدہ بھی ہیں کہ کہیں تیل کی فروخت صفر نہ ہو جائے۔تیل کی ڈیمانڈ اگر ختم ہو گئی تو تیل کی قیمت بھی نہیں رہے گی۔اس حقیقت سےانکارنہیں کیاجاسکتاکہ اوپیک میں شامل ممالک اتحاد کرکےامریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیےپریشانیاں کھڑی کر سکتے ہیں۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ چند ممالک اگر ایسااتحادکر بھی لیں تو اس کے اثرات مہلک نہیں ہوں گے،کیونکہ مشرق وسطی پر امریکی کنٹرول بہت زیادہ ہےاور امریکہ آسانی سےتیل کی قلت کا مقابلہ کر سکتا ہے۔مغرب اس بات سے خوف زدہ بھی ہے کہ کہیں تیل کو بطور ہتھیار استعمال نہ کر لیا جائے،اسی لیے سعودی عرب اورکچھ دوسرے تیل پیدا کرنے والے ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھے ہوئے ہیں۔بہرحال اوپیک کس طرح ایران کو مطمئن کرتا ہےاور مغرب کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی،کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ تیل کو بطور ہتھیار استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔ایران اپنی بقا کی جدوجہد میں مصروف ہے۔مستقبل بھی ایران کے لیےخاصہ خطرناک نظرآتا ہے،ایران کس طرح ان خطروں کو ختم کرےگا؟لازمی طور پر اگر کوئی زبردستی جنگ اس پر تھوپ نہ دی جائے تو اس کی کوشش ہوگی کہ اپنا بچاؤ ہی کر لیا جائے تو یہ بھی بہتر ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International