Today ePaper
Rahbar e Kisan International

ایران اورسعودی عرب کے تعلقات

Articles , Snippets , / Tuesday, February 18th, 2025

تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com

ایران کے وزیر خزانہ اور معاشی امور عبدالنصر ہمتی نے کہا کہ ایران سعودی عرب کے ساتھ سرمایہ کاری اور معاشی تعلقات بڑھانے کے لیے تیار ہے۔اس بات کا بھی ذکر کیا کہ تعلقات بڑھانے کے لیے مخصوص معاہدے ضروری ہیں۔دوہرے ٹیکسوں کو ختم کرنے اور دو طرفہ سرمایہ کاری اور کسٹم رولز کے بارے میں بھی ذکر کیا۔بیرونی مداخلت کے درمیان مضبوط معاشی تعلقات کی اہمیت پر زور دیا۔مزید کہا کہ خطے کی خود مختاری کو قائم رکھنے اور استحکام کے لیے مضبوط معاشی تعاون ضروری ہے۔ہر ایک سے اچھے تعلقات لکھنے کا بھی ذکر کیا۔ایران کے پڑوسی ممالک بشمول سعودی عرب،قطر اور رحمان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کا عزم ظاہر کیا۔یہ اچھی بات ہے کہ ایران سعودی عرب سمیت ہر ایک کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کا خواہش مند ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایران اس کوشش میں کامیاب ہو سکتا ہے؟اس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ آسانی سےایران اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کے آگےبہت بڑی رکاوٹیں موجود ہیں۔تہران ان رکاوٹوں کو عبور کرنے کی کوشش کر رہا ہےلیکن کامیابی سے ابھی دور ہے۔اس کی ہر ممکنہ کوشش یہ ہے کہ پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات اگر اچھے نہ ہو تو اتنے برے بھی نہ ہو کہ جنگ کی صورتحال پیدا ہو جائے۔ایران بہت بڑے مخالفین کا مقابلہ کر رہا ہےاور ان مخالفین میں اسرائیل سمیت امریکہ جیسے مخالف بھی شامل ہیں۔امریکہ نے ایران پر سخت قسم کی پابندیاں لگائی ہوئی ہیں اور یہ پابندیاں ایران کے لیے سخت دشواریاں پیدا کر رہی ہیں۔ایران تیل کو عالمی منڈی میں پابندیوں کی وجہ سے فروخت نہیں کر سکتا۔صرف تیل کا مسئلہ نہیں بلکہ دیگر اشیاء بھی فروخت نہیں کر سکتااورخریداری بھی پابندیوں کی وجہ سےمشکل بنی ہوئی ہے۔ایران کی کوشش ہے کہ اس کےدوسروں کےساتھ سفارتی تعلقات ہوں یا تجارتی و دیگر نوعیت کے تعلقات،جوبھی تعلقات ہوں بہتر ہونےچاہیے۔ایران اپنے دفاع کے لحاظ سے بھی خطرے کا سامنا کر رہا ہے۔سعودی عرب اور اس کے تعلقات اس حد تک نہیں بگڑے کہ جنگ شروع ہو جائے،مگر اس بات کا امکان موجود ہے کہ مستقبل میں جنگ شروع ہو جائے۔سعودی عرب پردباؤ ڈال کربھی ایران سےجنگ شروع کروائی جا سکتی ہے۔سعودی عرب معاشی لحاظ سے مضبوط ہے،لیکن دفاعی لحاظ سے اس کا شمار کمزور ممالک میں ہوتا ہے۔بیرونی امداد کے ذریعےسعودی عرب اپنے دفاع کو قائم رکھے ہوئے ہےلیکن یہ بیرونی امداد اس کو دباؤ میں بھی رکھ رہی ہے۔سعودی عرب تیل فروخت کرنے والےممالک میں شامل ہےاور اس کے گاہکوں میں چین جیسے خریدار بھی شامل ہیں،لیکن اب تیل پر انحصار کرنے کی بجائے تجارت کےدیگر ذرائع ڈھونڈے جا رہے ہیں اور ان پر عمل درآمد بھی شروع ہو چکا ہے۔اس بات کے امکانات پیدا ہو چکے ہیں کہ مستقبل قریب میں تیل کی اہمیت ختم ہو جائے گی اور اس کے متبادل ذرائع استعمال کیے جائیں گے۔سعودی عرب کو اس بات کا اچھی طرح احساس ہے کہ تیل کی بجائےدوسرے ذرائع معیشت کی مضبوطی کے لیے ضروری ہیں۔
تہران اور ریاض کے درمیان 2023 میں بھی کچھ برف پگھلی تھی اور امکان بڑھ گیا تھا کہ دونوں فریق بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ان کےاختلافات ختم کرنے اور ایک میز پر بٹھانے کے لیے چین کی کوششیں شامل تھیں،لیکن زیادہ توقعات پوری نہ ہوئیں۔ماضی میں بھی کچھ ایسےاقدام اٹھائے گئے تھے کہ دونوں ممالک دوستانہ تعلقات رکھیں،لیکن یہ اختلافات اور بیرونی مداخلتوں کی وجہ سےپائیہ تکمیل تک نہ پہنچ سکے۔مشرق وسطی میں پھیلا انتشار ان دو ممالک کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ایران اس انتشار سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ایران بعض اوقات خود بھی ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتا ہےجو دوسروں کی سلامتی کے لیے خطرناک ہوتی ہیں۔دعوی کیاجاتاہےکہ ایران شام میں بھی مداخلت کرتارہاہے۔اب دوبارہ کوششیں ہو رہی ہیں کہ تہران اور ریاض بہتری کی طرف بڑھیں۔مسلکی اختلافات نے بھی ان کے درمیان دوریاں پیدا کی ہوئی ہیں۔سیاسی ماحول بھی ان کے درمیان بہت بڑے فاصلےپیدا کر رہا ہے۔سعودی عرب میں بادشاہی نظام ہے اور ایران میں جمہوری نظام۔بادشاہی نظام میں عوام کی رائے کو خاص اہمیت نہیں دی جاتی،لیکن جمہوری نظام میں عوامی رائے کو مقدم جانا جاتا ہے۔سیاسی اختلافات اور مسلکی اختلافات ختم کرنے کی کوشش کی جائےتو ان دونوں ممالک میں بہت بڑی بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔ان دونوں ممالک کے اختلافات خطے کے دوسرے ممالک پر بھی اثر ڈال رہے ہیں،کیونکہ یہ دونوں ریاستیں دو بڑے فرقوں(سنی۔شیعہ)میں مقدم جانےجاتے ہیں۔ایران شیعہ فرقہ کے قریب ہے اور سنی سعودی عرب کو ترجیح دیتے ہیں۔دونوں ممالک اگرصرف مسلکی اختلافات کو بھی حل کر لیں تو بڑے فاصلے آسانی سےعبور کیے جا سکتے ہیں۔دونوں ممالک کشیدگی کو ختم کرایک دوسرے کے قریب آکرخطے کی بہتری کے لیےبہت کچھ کر سکتے ہیں۔
سعودی عرب کچھ اقدامات سرانجام دے کر ایران کوآگے نکلنے میں مدد دے سکتا ہے۔مثال کے طور پر ایران عالمی پابندیوں کا سامنا کر رہا ہےاور یہ پابندیاں ایران کو عالمی طور پر تنہا کر رہی ہیں،سعودی عرب ایران کے ساتھ اتحاد کر کےاورباہمی تجارت کو فروغ دے کراس کو معاشی طور پر مضبوط بنا سکتا ہے۔سعودی عرب عالمی رہنماؤں کو بھی پابندیاں ہٹانے کے لیےمجبور کر سکتا ہے۔ان کوششوں میں پاکستان،ترکی اور دیگر ممالک بھی شامل ہو کراپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ایرانی تیل بھی فروخت کیا جا سکتا ہے۔اسی طرح کچھ اقدامات میں ایران سعودی عرب کے لیےمددگار ثابت ہو سکتا ہے۔دفاعی امداد اور تجارت کے نئےراستے ایران کےتوسط سے آسانی سےحاصل ہو سکتے ہیں۔حالات بتا رہے ہیں کہ ابھی ان دونوں ممالک کو قریب آنے میں کچھ عرصہ لگ سکتا ہے،لیکن ناممکن نہیں۔ایران دوست ممالک کو اپیل کر کےسعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کر سکتا ہے۔چین اور پاکستان،ایران اور سعودی عرب کوآسانی سے قریب لا سکتے ہیں۔تہران اور ریاض کو بھی کم از کم ایک دوسرے کی پریشانیوں کو سمجھنا ہوگا۔ان باتوں کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ کون سی وجوہات ہیں جو ان ممالک کو ایک دوسرےسے دور کر رہی ہیں؟دینی لحاظ سے مسلم ہیں اور پڑوسی بھی ہیں،لیکن ایک دوسرے سے دور ہیں۔مسلکی اختلافات اتنے جاندار نہیں ہوتے کہ ایک دوسرے کو دشمن بنائے رکھیں بلکہ ان اختلافات کو بات چیت کے ذریعے بھی حل کیا جا سکتا ہے۔تہران اور ریاض او آئی سی کو بھی بیدار کر سکتے ہیں۔دیگر اسلامی ممالک بھی مضبوط اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کریں،بلکہ یقینی بنائیں کہ متحد ہو جائیں۔یہ اتحاد امت مسلمہ کوآسانی سے بیدار کر سکتا ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International