Today ePaper
Rahbar e Kisan International

انڈیا میں مسلمانوں اوراقلیتوں کی حالت

Articles , Snippets , / Thursday, February 20th, 2025

11 فروری 2025 کو بھارتی ریاست تلنگانہ کےایک گاؤں انتھا رام میں محمد اسماعیل نامی ایک مسلمان رفع حاجت کے لیے کھیتوں میں جاتا ہے۔کھیتوں کے مالکان ویراریڈی اور وجے ریڈی مشتعل ہوجاتےہیں اور تقریبا 40 افراد کے ساتھ مل کرمحمداسماعیل پر حملہ کر دیتےہیں۔درجنوں افراد ایک نہتے اور کمزور آدمی کو مارنا شروع کر دیں تو یہ بہت اذیت ناک عمل ہوتا ہے۔اسماعیل کی 15 سالہ بیٹی عالیہ باپ کو پٹتا دیکھ کر اس کو بچانے کے لیے گئی۔مجرمین جو اسماعیل پر تشدد کر رہے تھے،اس تشدد میں ڈنڈے اور پتھر بھی استعمال کیے جا رہے تھے۔بھاری پتھروں سے 15 سالہ بچی کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔عالیہ شدید زخمی ہو گئی اور چار دن زندگی اور موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد شہید ہو گئی۔ذرا تصور کیا جائےکہ اس بچی پر کتنا تشدد کیاگیا ہوگا،جس کے نتیجے میں وہ جان کی بازی ہار گئی۔ایسے کئی واقعات ملتے ہیں جن میں مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔صرف مسلمان ہی تشدد کا نشانہ نہیں بنتے بلکہ دیگر اقلیتیں بھی ان کے شر سے محفوظ نہیں ہیں۔غیر ہندوؤں کو تو چھوڑیے،ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے دلت بھی ان کےشر کا نشانہ بنتے ہیں۔ایک واقعہ کے مطابق 2019 میں دلت بچوں کو بھی اونچی ذات کے ہندوؤں نے قتل کر دیا تھا۔وجہ یہ تھی کہ دو چھوٹے دلت بچےسڑک کے ساتھ رفع حاجت کر رہے تھے،ان معصوموں کا یہ عمل اعلی ذات کےہندوؤں نے توہین سمجھا اور ڈنڈے مار مار کر ان بچوں کو قتل کر دیا۔ان مقتولوں کے خاندان کے پاس ٹوائلٹ کی سہولت موجود نہیں تھی۔اقلیتوں اور دلتوں کے حقوق کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔انڈیا میں انسانی حقوق پامال کیے جاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہوتا۔صرف رفع حاجت کی وجہ سے تشدد کر کے قتل کر دیے جاتے ہیں۔انڈیا میں لاکھوں افرادٹوائلٹ کی سہولت سے محروم ہیں اور رفع حاجت کھلےآسمان کے نیچے کرتے ہیں۔انتھارام اوراردگردرہنے والے مسلمان اسمعیل پرتشدداورعالیہ کےقتل کی وجہ سے خوف کا شکار ہو چکے ہیں۔اس گاؤں کے مسلمان مشتعل بھی ہیں کیونکہ ایک مسلمان بچی کو بے گناہ قتل کر دیا گیا ہے۔اس بے گناہ کا خون بھی رائیگاں جائے گا،کیونکہ حکومت کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھائے گی جس سےظلم کا نظام رک سکے۔
انڈیا میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی حالت بہت ہی بدتر ہے۔مسلمانوں کو گائے ذبح کرنے کی وجہ سےقتل کر دیا جاتا ہےاور بعض اوقات صرف شبہ ہونے کی صورت میں یہی سزا دے دی جاتی ہے۔مسلمانوں کی مساجد اور مقدس مقامات کو بھی گرا دیا جاتا ہے۔بابری مسجد جو صدیوں کی تاریخ رکھتی تھی لیکن تعصب کی بنا پراس کو شہید کر دیا گیا۔دیگر کئی مساجدکو بھی نشانہ بنایاگیا۔خواجہ غریب نواز کی درگاہ کو بھی گرانے کی سازشیں کی جا رہی ہیں اور سنبھل کی مسجد کو بھی نشانہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔حالانکہ مقدس مقامات کوآئین میں تحفظ بھی حاصل ہے لیکن آئین کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی اور نہ کسی اخلاقی اصول کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔مسلمانوں کے علاوہ دیگر اقلیتیں بھی انتہاپسندہندوؤں کے نشانے پر رہتی ہیں۔انڈیا میں ذات پات کی تقسیم اور فرقہ وارانہ نفرت بہت ہی بڑھی ہوئی ہے۔نفرت کی وجہ سے اکثر کمزوروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔انڈیا میں مسلمان کروڑوں کی تعداد میں رہائش پذیر ہیں لیکن ان کی حالت بہت ہی بری ہے۔مسلمان جو بڑی اقلیت میں ہیں اور ہندوستان کی ترقی میں اپناحصہ ڈال رہے ہیں لیکن ان کونشانہ بنایا جاتا ہے۔مسلمان کوشش کرتے ہیں کہ ہندوؤں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کیے جائیں لیکن وہ کامیاب نہیں ہو پاتے کیونکہ ہندوؤں کا رویہ بدترین ہوتا ہے۔مسلمانوں کو کاروبار اور ملازمتوں میں بھی کئی دشواریوں کو سامنا ہوتا ہے۔مسلمانوں کے علاوہ دیگر اقلیتیں بھی اس قسم کے مسائل سے دوچار رہتی ہیں۔ہندو اکثر مخالفین کے کاروبار تباہ کر دیتے ہیں۔اقلیتیں اپنے حقوق کے لیےجدوجہد کر رہی ہیں لیکن ہندو اکثریت ان کی جدوجہد کو ناکام کر رہی ہے۔
انڈیا کا دعوی ہے کہ وہ ایک سیکولر ریاست ہےلیکن حقائق اس کے برعکس ہیں۔مذہبی طور پرہندوتوا نافذ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ہندو مذہب کے پیروکارتشدد کو مذہب کا درجہ دے رہے ہیں۔ہندو اور غیر ہندو کی تفریق ہندوستان کو تقسیم کر رہی ہے۔انڈیا کی حکومت تشدد کو روکنے کی کوشش نہیں کرتی۔نریندرامودی جب پنجاب کے وزیر اعلی تھے تو اس کے دور حکومت میں بھی سینکڑوں مسلمانوں کو جلا دیا گیا تھا۔ہندو انتہا پسندی میں بہت ہی بڑھ چکے ہیں اور کسی غیر ہندو کو برداشت کرنے کےروادار ہی نہیں۔مسلسل تشدد اور نفرت کا سلوک غیر ہندوؤں کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔غیر ہندو اپنی عبادتیں نہیں کر سکتے۔مسلمانوں کو تو نمازوں کی ادائیگی سے خاص طور پر روک دیا جاتا ہے۔صرف مسلمان ہی نہیں نچلی ذات کی ہندو بھی عبادت کرنے میں بھی دشواری محسوس کرتے ہیں۔ہندو ظلم کرنے میں اتنے بڑھ چکے ہیں کہ جانور کی بجائے انسان کو ذبح کرنا جرم ہی نہیں سمجھتے۔جتنا ایک گائے کو تقدس حاصل ہے اتنا انسانوں کو نہیں۔زندہ جلا کر قتل کرنا وحشیانہ پن ہےلیکن انتہا پسند اس جیسے فعل میں تسکین پاتے ہیں۔حکومتی ایوانوں میں بیٹھے ہوئےحکمران بھی کچھ نہیں کرتے۔مسلمانوں کےمقدس شخصیات کو بھی گستاخیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔مسلمان کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے حالات بہتر ہو جائیں۔اسلامی ریاستیں اور عالمی برادری انڈیا پر دباؤ ڈالے کہ انسانی حقوق کا خیال رکھاجائے۔انسانی حقوق کی پامالی خطرناک عمل ہے اور اس کا خمیازہ ہندوستان کو بھگتنا بھی پڑے گا۔انڈیا میں دیگر بسنے والی اقلیتیں اگرآپس میں اتفاق پیدا کر لیں توان کا اتحاد انتہا پسند ہندوؤں کو مجبور کر دے گا کہ ان کے حقوق پامال نہ ہو سکیں۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International