مادری زبانوں کا عالمی دن ہر سال اکیس فروری کوخوب دھوم دھڑکے سےمنایا جاتا ہے . اگر ہم یہ جاننا چاہیں کہ اس کی تاریخ کیا ہے تو قصہ کچھ یوں ہے کہ اس کی تاریخ بنگلہ دیش کی زبان کی تحریک سے جڑی ہے , ڈھاکہ یونیورسٹی کے طالب علموں نے انیس سو باون ( 1952 ء)میں اپنی مادری زبان یعنی بنگالی کو قومی زبان کا درجہ دلوانے کے لئے احتجاج کیا , یہ احتجاجی مظاہرہ جب شدت اختیار کر گیا تو پولیس نے مظاہرین پر گولی چلا دی , جس کے نتیجے میں بہت سے بے گناہ اور معصوم طلبہ شہید ہو گئے , بعدازاں ان شہداء کی قربانیوں کو خراج تحسیین پیش کرنے کے لئے 1999ء کو یونیسکو نے 21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی د ن قرار دیا . اس دن کو منانے کا مقصد ہر زبان میں تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنا , تمام زبانوں کے تحفظ کے لئے شعور اجاگر کرنا , مادری زبانوں میں تعلیم کی حوصلہ افزائ اور ہر ملک کی ثقافت کو فروغ دینا ہے . یہ سب اپنے اپنے ملک اور علاقے کی شناخت و ورثے کے تحفظ کے لئے ضروری ہے . اس دن پوری دنیا میں اپنے اپنے ملک کی زبانوں کے فروغ کے لئے مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے , ہمارا ملک پاکستان ہے , پاکستان کے سب صوبوں اور علاقوں میں مختلف زبانیں بولیں جاتیں ہیں , ہر انسان کو اپنی مادری زبان سے محبت ہوتی ہے , چاہے وہ دنیا کے کسی بھی ملک میں اپنا ملک چھوڑ کے رہائش اختیار کر چکا ہو , اپنے وطن سے دور ہو , اپنی اپنی مادری زبان سب کو پیاری ہوتی ہے . پاکستان کی قومی زبان اردو ہے , لیکن علاقائ کئ زبانیں ہیں , جیسے پنجابی , سندھی , بلوچی , پشتو وغیرہ . ہم پنجاب میں رہنے والے پنجابی زبان بولتے ہیں اور اسی کی ترویج کرتے ہیں , اسی طرح دوسرے صوبوں والے اپنی اپنی زبان کی .
زبانوں کے تناظر میں ایک دوسرے کو حقیر اور دشمن سمجھنا سراسر پست ذہنیت ہے , زبانیں تو پہچان اور بات چیت کے لئے ہوتیں ہیں , ناکہ نفرت اور فرقہ واریت کے فروغ کے لئے , دنیا کی ہر زبان خوبصورت ہے , لیکن اپنے ملک سے محبت کی وجہ سے ہمیں اپنے ملک کی زبانیں اچھی لگتیں ہیں اور لگنی بھی چاہئے , ہمیں اپنے ملک کی تمام زبانوں کی عزت کرنی چاہئے اور انھیں دنیا میں فروغ دینا چاہئے , لیکن اس کے پیچھے ایک دوسرے سے نفرت اور نیچا دکھانا انتہائ حماقت اور جہالت کی انتہا ہے , بے چاری زبان کا اس میں کیا قصور اور بولنے والے نے آپ کا کیا نقصان کر دیا ہے . زبانوں کے تعصب میں ایک انسان دوسرے انسان کی جان تک لے لیتے ہیں , اس طرح جانے کتنے لوگ اب تک زندگی کی بازی ہار چکے ہیں , جانے یہ سب کرکے کسی کو کیا ملتا ہے , مسلمان دوسرے مسلمان کو زبان کی وجہ سے قتل کر دیتے ہیں , ہمارا مذہب تو ہمیں اس ظلم کی اجازت نہیں دیتا , زبانیں اور ذات پات تو صرف پہچان کے لئے بنائیں گئیں ہیں , ناکہ نفرت اور جان تک لینے کی حد تک جانے کے لئے . پچھلے دنوں لاہور میں پنچابی کانفرنس میں دو خواتین کی بیک سٹیج اردو زبان میں معمولی سی گفتگو کرنے پر ایک اچھے بھلے پڑھے لکھے بندے نے ان کے خلاف سوشل میڈیا پر پوسٹ لگا دی کہ پنجابی کی تقریب میں اردو بولنا جیسے ایک جرم ہو گیا ہو , صرف چند لائکس اور کمنٹس لینے کے چکر میں , جب کچھ مضبوط مواد نہ ملا تو اپنے ہی ملک کی قومی زبان کے بغض میں لکھ ڈالا , یہ تو سراسر فرقہ واریت کو ہوا دینے والی قابل نفرین حرکت ہے . اسی طرح پنجابیوں کو پنجابی ہونے کے جرم میں کئ جگہوں پر سرعام قتل کر دیا گیا , ان حرکتوں سے دراصل ہم ثابت کیا کرنا چاہتے ہیں , دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ عالمگیر اور سچے مذ ہب کے پیروکار کتنے جاہل اور تنگ نظر ہیں , جو ایک دوسرے کو زبانوں کے باعث بدنام کرتے ہیں , یہاں تک کہ قتل تک کر ڈالتے ہیں .اسی طرح اردو بولنے والوں کو احساس کمتری میں مبتلا کر دیا جاتا ہے , کہ وہ انگریزی نہیں بول سکتے , یہ غلامانہ ذہنیت رکھنے والوں کی سوچ ہے . ہماری قومی زبان اردو ہے , جو کہ پوری دنیا میں بولی جاتی ہے , ہمیں اس پہ فخر ہے , ہماری مادری زبان پنجابی ہے , جو کہ اولیا ء , صوفیاء کرام اور ہمارے اجداد کی زبان ہے , ہمیں اس سے عقیدت ہے , زبانوں کی اہمیت اور مقصد کے حوالے سے قرآن پاک کی ایک آیت کا یہ مفہوم ہے کہ ہم نے ہر ہر نبی علیہ السلام کو اس کی قومی زبان میں ہی بھیجا ہے , تاکہ ان کے سامنے وضاحت سے بیان کر دے , اب اللہ جسے چاہے گمراہ کر دے اور جسے چاہے راہ دکھا دے , وہ غلبہ اور حکمت والا ہے .
ہماری نظر میں دنیا کی ہر زبان خوبصورت اور قابل احترام ہے .البتہ سب سے پیاری اور انمول زبان ” پیار اور احترام ” کی زبان ہے, جسے دنیا کا ہرانسان چاہے وہ کسی بھی ثقافت اور مذہب سے متعلق ہو , سمجھ بھی لیتا ہے اور پسند بھی کرتا ہے .
آئیے اس اکیس فروری زبانوں کے عالمی دن پر ہم سب اقرار اور عہد کرتے ہیں کہ آئندہ ہم کسی زبان کو حقیر نہیں سمجھیں گے اور ہر زبان کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں گے کہ زبانیں ہمیں نفرت کا سبق نہیں دیتیں اور ہر شخص کو اپنی زبان ویسے ہی عزیز ہوتی ہے کہ جیسے ہم اپنی زبان سے پیار کرتے ہیں .
ہمارے نصاب تعلیم کو اس طرح کا ہونا چاہئے کہ ہر علاقے کا طالب علم اپنی زبان منتخب کر سکے اور بچوں کو شروع میں ہی زبانوں اور انسانوں کا احترام سکھانا چاہئے .
Leave a Reply