تازہ ترین / Latest

Today ePaper
Rahbar e Kisan International

غزہ اسرائیل جنگ بندی معاہدہ کی مشکلات اورغزہ کی تعمیرنو

Articles , Snippets , / Wednesday, February 26th, 2025

تحریر:اللہ نوازخان
allahnawaz012@gmail.com

ماہ کی شدید جنگ کے بعد 19 جنوری 2025 کو حماس اور اسرائیل کے درمیان ایک جنگ بندی معاہدہ ہوا۔اس جنگ بندی معاہدہ میں پہلا مرحلہ جنگ کو روکنا اور قیدیوں کاتبادلہ تھا۔اس معاہدے کے مطابق اسرائیل دوہزار کے قریب فلسطینی قیدیوں اور فلسطین تینتیس قیدیوں کورہا کرنے کے پابند تھے۔قیدیوں کے تبادلے ہو رہے تھےاورجنگ بندی کا پہلا مرحلہ تکمیل تک پہنچنے والا تھا کہ اسرائیل نے600 قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کر دیا۔اسرائیل نے قیدیوں کو رہا کرنے سےیہ کہ کرانکار کیا کہ حماس کی طرف سےاسرائیل کےرہا ہونے والے قیدیوں کی توہین ہو رہی ہے۔حماس ارکان ایک عوامی تقریب کے ذریعےقیدیوں کو رہا کرتے تھے۔اب جب حماس نے چھ قیدی کو رہا کیا تو بدلے میں اسرائیل نے فلسطین کے قیدیوں کی رہائی کو موخر کر دیا۔فلسطینی مزاحمتی گروپ نے اس اقدام کو معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔حماس نے ایک شہری بیاس،ان کے دوکمسن بیٹوں اورایک بزرگ کی لاشوں کی باقیات اسرائیل کے حوالے کیں تو اسرائیل نےاس بات کا الزام لگایا کہ یہ بیاس کی باقیات نہیں ہیں اور اس بات کوخلاف ورزی کہہ کر سخت قسم کی دھمکیاں بھی دے دیں۔بعد میں حماس نےایک لاش کی باقیات حوالے کیں تو اسرائیل نے تصدیق کی کہ یہ بیاس کی لاش کی باقیات ہیں۔اسرائیل کا دعوی کہ حماس کی طرف سے اسرائیلی قیدیوں کی توہین ہو رہی ہے،اس میں کوئی حقیقت نہیں تھی بلکہ ایک بہانہ ہی تھاکیونکہ آخری مرحلہ میں اس قسم کا الزام لگایا گیا۔بہرحال اب پھراس معاہدے پر اتفاق ہو گیا ہےکہ اب قیدی بغیر کسی عوامی تقریب کےمصری حکام کے حوالے کیے جائیں گے۔اس تناؤ سےخدشہ پیدا ہو گیا تھا کہ معاہدہ کینسل ہو سکتا ہے۔اس تناؤسے قبل اسرائیلی اور حماس کےحکام نے اعلان کیا تھا کہ پہلے مرحلے کے اختتام پر پہنچ چکے ہیں۔اس طرح توقع پیدا ہو گئی تھی کہ یہ جنگ بندی عارضی نہیں ہوگی۔اب جب تناؤ پیدا ہوا تو پھر جنگ کے شروع ہونے کا امکان بڑھ گیا تھا۔
جنگ بند بھی ہو گئی تو غزہ بحالی آسان نہیں ہوگی۔غزہ کی 90 فیصدآبادی بے گھر ہو چکی ہے۔بہت سےفلسطینی اپنے گھروں کے ملبے کے ڈھیروں کے سامنے خیمے لگا کر رہائش پذیر ہیں۔ان کو صرف رہائش کا مسئلہ نہیں بلکہ دیگر مشکلات بھی پیش آرہی ہیں۔موسمی حالات بھی غزہ کے رہائشیوں کی مشکلات میں اضافہ کررہے ہیں۔شدید سردی کا موسم ہےاور سہولیات ندارد ہیں۔اسرائیل غزہ کےرہائشیوں تک ضروری سہولیات کی فراہمی روک رہا ہے۔اسرائیل کے اس ظالمانہ اقدامات کی مذمت کی جانی چاہیے اور اس پر عالمی دباؤ ڈالا جائے کہ وہ ایسا فعل سر انجام نہ دے جس سے انسانی زندگیاں خطرے سے دوچار ہو جائیں۔غزہ میں پناہ گاہیں، گرمائش کی سہولیات اور فوری طبی سامان جیسی اشیاء کی ہنگامی بنیادوں پر ضرورت ہے۔اقوام متحدہ سمیت اسلامی ممالک فوری طور پر تمام سہولیات پہنچائیں،خصوصا بنیادی ضروریات تو جتنی جلدی پہنچ سکتی ہیں پہنچا دینی چاہیے۔سردی کی وجہ سےچھ نوزائیدہ بچوں کی ہلاکت بھی ہو چکی ہےاور ان ہلاکتوں کا الزام حماس نے اسرائیل پر لگایا ہے کہ وہ سہولیات کو روک کرفلسطینیوں کو موت کی طرف دھکیل رہا ہے۔غزہ کا پورا بنیادی ڈھانچہ تقریبا ملبے میں تبدیل ہو چکا ہےاوراسپتال بھی تباہ ہو چکے ہیں۔بجلی اور پانی کی مشکلات بھی ہیں۔طبی سامان اور ادویات کی بھی کمی ہے۔چھ بچوں کی ہلاکت نہ ہوتی اگر اسپتال میں سہولیات موجود ہوتیں۔صحت کا نظام فوری طور پر بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ابھی بحالی میں مشکلات پیش آرہی ہیں اور دوبارہ جنگ چھڑنے کا خدشہ بھی موجود ہے۔فلسطینیوں کو بحالی کے لیے بھی طویل عرصہ درکار ہوگا۔جو رقبہ اسرائیل کے قبضہ میں آچکا ہے ہو سکتا ہے کہ وہ واپس نہ ہو۔زراعت اور باغبانی کے لیے بھی فلسطینیوں کو رقبہ درکار ہوگا۔بہت سا رقبہ جنگ کی وجہ کاشت کے قابل بھی نہیں ہوگااوروہ رقبہ قابل کاشت بنانے کے لیےبہت وقت کےساتھ زیادہ محنت درکار ہوگی۔گھروں کی تعمیر نو بھی بہت ہی مشکل ہدف ہے۔ان مشکلات میں دوبارہ جنگ چھڑنا بھی خطرناک ثابت ہوگا۔اسرائیل کوئی سا بہانہ بنا کر جنگ بندی معاہدہ ختم کر سکتا ہے،اس بات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ بغیر بہانے کی ہی اسرائیل معاہدے کو ختم کر دے۔
ایک اور بڑا مسئلہ بھی موجود ہے اور وہ ہےحماس کا انتظامی امورکو سنبھالنا۔حماس نے سیکیورٹی اور دیگر امور سنبھال لیےہیں،لیکن اسرائیل کو اعتراض ہے کہ حماس حکومت یا دیگر امور نہ سنبھالے۔اسرائیل کا دعوی ہے کہ حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہےاور اس کے خاتمے کے لیےپوری کوشش کر رہا ہے۔اسرائیل پوری کوشش کرے گا کہ حماس کا کردار ختم ہو جائےیا کم از کم اتنا محدود ہو جائے کہ اسرائیل کے لیے خطرہ نہ بنے۔حماس نے مضبوطی سے عوام میں جڑیں بنالی ہیں اورعوامی تعاون اس کو مضبوط کیے ہوئےہے۔اسرائیل دوبارہ جنگ چھیڑ سکتا ہے کہ حماس حکومت سنبھال رہی ہے۔ثالث کوشش کر رہے ہیں کہ یہ جنگ بندی معاہدہ پائیہ تکمیل تک پہنچے۔غزہ کا امن مشرق وسطی کے امن کا ضامن ہوگا۔اسرائیل گریٹر اسرائیل کی طرف بڑھنے کی کوشش کرے گااور یہ اسرائیلی عمل خطے کے لیےنقصان کا سبب بنے گا۔غزہ اسرائیل جنگ بندی معاہدے کو پائیہ تکمیل تک پہنچانا چاہیےتاکہ امن کی راہ ہموار ہو سکے۔عالمی برادری کو اچھی طرح احساس ہےکہ مشرق وسطی میں پھیلی بدامنی عالمی بد امنی کاسبب بن سکتی ہے۔اسرائیل کو پابند بنایا جائے کہ خوراک اور دوسری ضروری اشیاء فلسطینیوں تک بلا روک ٹوک پہنچنی چاہیے۔جنگ بندی معاہدے کے دیگرمرحلوں پر بھی کام شروع ہو جانا چاہیے تاکہ مزید تباہی سے بچا جا سکے۔غزہ اور اسرائیل جنگ بندی معاہدے کے لیےضروری ہے کہ دونوں فریقین تحمل اور حوصلے سے کام لیں۔حماس کو اچھی طرح علم ہے کہ اسرائیل کتنا امن پسند ہے؟معاہدے کی تھوڑی بہت خلاف ورزی برداشت کی جائے۔غزہ بحالی کے لیےصبر وتحمل سے کام لینا ہوگا۔رہائشی ڈھانچہ،سکول،اسپتال اور دیگر امورسرانجام دینےکےلیے دفاتر تعمیر کرنے ہوں گے۔ان تعمیرات پر وسیع سرمایہ خرچ ہوگا۔تعلیم کا نظام خصوصی توجہ کامستحق ہوگا کیونکہ تعلیم یافتہ بچےہی فلسطین کو کامیاب بنائیں گے۔بچوں کی کونسلنگ بھی ضروری ہے،کیونکہ جنگ نے ان کے اعصاب تباہ کر دیے ہیں۔اس بات کا بھی ہر ایک کو اچھی طرح علم ہے کہ غزہ معاہدے کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے کی زبردست کوشش کر رہا ہے،صرف اسرائیل سے خطرہ ہے۔اسرائیل کو عالمی دباؤ روک سکتا ہے کہ جنگ بندی معاہدہ پائیہ تکمیل تک پہنچے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International