Today ePaper
Rahbar e Kisan International

بھوک ایک سنگین مسئلہ

Articles , Snippets , / Friday, February 28th, 2025

تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com

بھوک ایک بہت بڑا عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔کہیں کھانےکےلیےبہت زیادہ خوراک موجود ہےاور کہیں خوراک کی شدید کمی ہے۔کہیں خوراک کی بہت سی اقسام موجود ہیں اورکہیں چند نوالوں کے لیے ترسا جاتا ہے۔افسوسناک بات یہ ہے کہ کئی جگہوں پرغذا کوضائع کر دیا جاتا ہے،حالانکہ یہ ضائع کی جانےوالی خوراک بھی کئی بھوکوں کو کھلائی جا سکتی ہے۔موجودہ دور میں تقریبا ایک ارب کے قریب افراد بھوک کا سامنا کر رہے ہیں اور ان کومعمولی سی خوراک بھی دستیاب نہیں۔وہ علاقےجہاں جنگیں جاری ہیں یا مختلف قسم کی وباؤں کا سامنا کر رہے ہیں،وہاں خوراک کی شدید کمی ہے۔غربت بھی بھوک میں اضافہ کرنے کا سبب بن رہی ہے۔مہنگائی نے بھی خوراک کے حصول کو شدید متاثر کیا ہے۔کئی ایسے علاقےجہاں فی کس امدنی کم ہے،وہاں بھی بھوک کا مسئلہ موجود ہے۔افریقہ کےزیریں صحارا کےممالک اور جنوبی ایشیائی ریاستوں میں بھوک کا مسئلہ موجود ہے۔ترقی پذیر ممالک میں کئی مسائل پائے جاتے ہیں لیکن خوراک کی عدم موجودگی اولین مسئلہ بنا ہوا ہے۔عرب دنیا میں یمن بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں غذا کی کمی ہے۔جنگ زدہ علاقے تو زیادہ بھوک سے متاثر ہیں۔مستقبل میں بھوک کا مسئلہ سنگین صورتحال اختیار کر لے گا۔جن علاقوں میں خوراک کی قلت ہے،وہاں دوسری سہولیات بھی موجود نہیں ہوتیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں،پانی کی کمی اور چند دیگر وجوہات کی وجہ سےبھوک کا مسئلہ پیدا ہو رہا ہے۔بھوک کے مسئلے کو ختم کیا جا سکتا ہے یااتنا کم کیا جا سکتا ہے کہ یہ زیادہ اذیت ناک نہ بن سکے۔اناج کی پیداوار میں اضافہ کر کےبھوک کے مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔موجودہ دور میں ٹیکنالوجی بہت زیادہ ترقی کر چکی ہے،جدید ٹیکنالوجی زیادہ پیداوار دے سکتی ہے۔کئی علاقوں میں زرعی اجناس پرانے طریقوں سےکاشت کی جا رہی ہیں،اگر کاشتکاری کے جدید ذرائع استعمال کیےجائیں تو وسیع پیمانوں پر خوراک حاصل ہو سکتی ہے۔سرمایہ کی کمی ٹیکنالوجی کے حصول میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے،اس کے لیے ضروری ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کاحصول ممکن ہو سکے۔ترقی یافتہ ممالک بھوک کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے ترقی پذیر ممالک کو ٹیکنالوجی قرض کی صورت میں دیں۔بعض ممالک میں انسانی آبادی زیادہ ہے لیکن وسائل کم ہونے کی وجہ سےبھوک کا مسئلہ پیدا ہو چکا ہے۔بعض ممالک میں وسائل اور دولت چند افراد کے قبضے میں آجاتے ہیں،اس وجہ سےبھی غربت بڑھی ہوئی ہے۔سرمایہ گردش میں رہے،تو کئی قسم کے فائدے حاصل ہو جاتے ہیں۔کئی ممالک ضرورت سے زیادہ خوراک ضائع کر دیتے ہیں،ان کوچاہیے کہ وہ بھوک سے متاثر ممالک کوخوراک دے دیں۔بھوک کےمسئلے پر قابو پانے کے لیےاقوام متحدہ کوشش کر رہی ہے اور کچھ ممالک بھی اس بہتر کام میں شامل ہیں،لیکن اب بھی امکان موجود نہیں کہ بھوک کے مسئلے پرکنٹرول پا لیاجائے۔عالمی سطح پر غذائی تحفظ کے بارے میں اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق،2030 تک بھوک،غذائی عدم تحفظ اور خوراک کی قلت سے چھٹکارا پانے کے ہدف کا حصول فی الحال ممکن نہیں۔
اسلام نے بھی اپنے پیروکاروں کو بھوک کے مسئلے پر قابو پانے کا حکم دیا ہے۔قرآن حکیم میں ہے”اور(اپنا)کھانا اللہ کی محبت میں(خود اس کی طلب وحاجت ہونے کے باوجودایثارا)ن محتاج کو اور یتیم کو اور قیدی کو کھلا دیتے ہیں،(اورکہتےہیں کہ)ہم تو محض اللہ کی رضا کے لیے تمہیں کھلا رہے ہیں،نہ تم سے کسی بدلہ کی خواستگار ہیں اور نہ شکر گزاری کے(خواہشمند)ہیں۔(الدھر)اجتماعی اور انفرادی دونوں طور پربھوکوں کو کھانے کھلانے کا حکم دیا گیا ہے۔زکوۃ اور خیرات بہترین نظام ہیں اور ان سے بھوک کے مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔دوسری جگہ پر بھی حکم ہے”تو تم خود(بھی) اس میں سے کھاؤ اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں کو اور سوال کرنے والے(محتاجوں)کو بھی کھلاؤ”(الحج)اسلام نےانفرادی طور پر پڑوسیوں کے حقوق کا بھی ذکر کیا ہےاور دوسرے مساکین و محتاجوں کےساتھ حسن سلوک کا بھی حکم دیا ہے۔اسلام نے کھانا کھلانے والے کوجنت کی نوید بھی سنائی ہے۔ایک حدیث کے مطابق “تم رحمان کی عبادت کرو اور کھانا کھلاؤ اور سلام عام کرو، سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ گے”(ترمذی)ایک اور حدیث کے مطابق جو مسلمان کسی بھوکے مسلمان کو کھانا کھلائے،اللہ تعالی اسے جنت کے پھل کھلائے گا اور مسلمان کسی پیاسے مسلمان کو پانی پلائے گا،اللہ تعالی اسے رحیق مختوم(جنت کامشروب) پلائے گا”(ترمذی)انسانوں کو تو چھوڑیے، اسلام میں جانوروں کو بھی خوراک دینے کا حکم ہے۔ایک حدیث کے مطابق”ایک عورت کو بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا،جس کو اس نے قید کر رکھا تھا یہاں تک کہ وہ مر گئی،تو وہ اس کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوئی،کیونکہ قید کرنے کے بعد نہ اسے کھانے کو دیا،نہ اسے پینے کو دیا اور نہ چھوڑا کہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھاتی”(بخاری)اسلامی نظام اپنانےسے بھوک سمیت کئی قسم کے مسئلےآسانی سے حل ہو سکتے ہیں۔
کئی خطوں میں بھوک اپنی شدت سے موجود ہے۔بھوک کا مسئلہ پرامن علاقوں کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے،کیونکہ بھوکے افراد خوراک کے حصول کے لیےجنگ بھی کر سکتے ہیں۔غربت زدہ علاقوں میں اپنی محنت کا پورا اجراکثر اوقات نہیں ملتا۔پورا معاوضہ نہ ملنا زیادتی ہےاور یہ زیادتی انتشار کی طرف بھی دھکیل سکتی ہے۔بھوک بے شمار انسانوں کو قتل کر رہی ہےاورمستقبل میں بھی کرتی رہے گی۔بھوک جیسے مسئلے کوپائیدار بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔عالمی برادری بھوک کے مسئلے کوحل کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے۔جہاں بھوک ہو وہاں انسان نہ تو اچھی طرح نشوونما پاتے ہیں اور نہ صحت مند رہتے ہیں اور وقت سے پہلے مر بھی جاتے ہیں۔اربوں انسان زندہ رہنے کے لیےسخت ترین جدوجہد کر رہے ہیں اور بھوک جیسا مسئلہ ان کے لیے سنگین رخ اختیار کر چکا ہے،اقوام متحدہ سمیت ترقی یافتہ ممالک اس مسئلے کو حل کرنے کی طرف توجہ دیں۔اربوں انسان موت جیسے خطرے سے دوچار ہیں،زندگیاں بچانے کے لیےعسرت زدہ علاقوں میں خوراک پہنچانے کا انتظام کیا جائے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International