(تحریر و تحقیق احسن انصاری)
جنگِ یمامہ ایک اہم معرکہ تھا جو 632 عیسوی میں حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی خلافت کے دوران پیش آیا۔ یہ جنگ ردہ کی جنگوں کا حصہ تھی، جو نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد اسلامی ریاست میں استحکام قائم کرنے کے لیے لڑی گئیں۔ اس دوران کئی جھوٹے نبی سامنے آئے، جن میں سب سے خطرناک مسَیلمہ کذاب تھا۔ اس نے یمامہ (موجودہ سعودی عرب کا ایک علاقہ) میں اپنی طاقتور حکومت قائم کر لی تھی۔ اس کی بڑھتی ہوئی طاقت اسلامی ریاست کے اتحاد کے لیے ایک بڑا خطرہ بن گئی تھی، جسے ختم کرنے کے لیے فوری فوجی کارروائی ضروری تھی۔
نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد کچھ عرب قبائل نے اسلام کو چھوڑ دیا اور زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کر دیا، جو کہ اسلامی معیشت کا ایک بنیادی ستون تھا۔ مسَیلمہ، جو بنو حنیفہ قبیلے سے تعلق رکھتا تھا، نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کر دیا۔ اس نے نبی کریم ﷺ کی زندگی میں بھی ایک خط کے ذریعے شراکتِ نبوت کی پیشکش کی تھی، جسے آپ ﷺ نے سختی سے مسترد کر دیا اور اسے کذاب (جھوٹا) قرار دیا۔ لیکن نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد، مسَیلمہ کے پیروکاروں کی تعداد تیزی سے بڑھنے لگی، اور اس نے ایک مضبوط فوج تیار کر لی۔ بہت سے لوگ اس کے ساتھ شامل ہو گئے، کیونکہ وہ اس کی طاقت اور ممکنہ فوائد کے خواہش مند تھے۔ اس کی بڑھتی ہوئی طاقت نے مدینہ میں مسلم قیادت کو تشویش میں مبتلا کر دیا، اور حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے فوری طور پر اس کے فتنے کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
مسَیلمہ کی بغاوت کو ختم کرنے کے لیے، حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے ایک طاقتور اسلامی فوج تیار کی اور اس کی قیادت کے لیے حضرت خالد بن ولید (رضی اللہ عنہ) کو مقرر کیا۔ حضرت خالد بن ولید (رضی اللہ عنہ) اپنی غیر معمولی جنگی مہارتوں کی وجہ سے مشہور تھے اور اس سے قبل کئی جنگوں میں مسلمانوں کو کامیابی دلوا چکے تھے۔ اسلامی فوج میں کئی عظیم صحابہ کرام بھی شامل تھے، جو بہادری اور دین کی خدمت کے لیے جانے جاتے تھے۔ مسلمانوں کی فوج کی تعداد تقریباً 13,000 سے 15,000 کے درمیان تھی، جبکہ مسَیلمہ کے پاس 40,000 جنگجوؤں پر مشتمل ایک بڑی فوج تھی۔ عددی برتری کے باوجود، مسلم فوج زیادہ منظم تھی اور اسلام کے دفاع کے لیے پرعزم تھی۔
یہ جنگ یمامہ کے میدان میں لڑی گئی، جہاں مسَیلمہ کے جنگجوؤں نے زبردست مزاحمت کی۔ جنگ کے ابتدائی مراحل میں مسلمانوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ مسَیلمہ کے پیروکار انتہائی سختی سے لڑ رہے تھے۔ مسلمانوں کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا، لیکن حضرت خالد بن ولید (رضی اللہ عنہ) نے فوری طور پر اپنی فوج کی صف بندی کو دوبارہ منظم کیا اور جنگی حکمت عملی تبدیل کی۔ انہوں نے فوج کو چھوٹے گروہوں میں تقسیم کیا اور ہر گروہ کو ایک مخصوص ہدف دیا، جس کی بدولت مسلمانوں کو دشمن پر قابو پانے میں مدد ملی۔
جنگ میں شدت آنے کے بعد، مسَیلمہ اور اس کے ساتھی ایک محفوظ قلعہ نما باغ میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے، جسے بعد میں “حدیقۃ الموت” (موت کا باغ) کہا جانے لگا۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں جنگ کا فیصلہ کن مرحلہ پیش آیا۔ باغ کے اندر زبردست خونریزی ہوئی، اور کئی مسلمان شہید ہوئے۔ آخر کار، حضرت وحشی (رضی اللہ عنہ)، جنہوں نے اسلام قبول کرنے سے قبل حضرت حمزہ (رضی اللہ عنہ) کو شہید کیا تھا، نے اپنے نیزے سے مسَیلمہ کو ہلاک کر دیا۔ اس کے قتل کے بعد، اس کے پیروکاروں کے حوصلے پست ہو گئے، اور مسلمان مکمل فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
یہ جنگ دونوں طرف سے بہت زیادہ جانی نقصان کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔ مسلمانوں کے 1,200 سے زائد سپاہی شہید ہوئے، جن میں سے ایک بڑی تعداد حفاظِ قرآن پر مشتمل تھی۔ اس بڑے نقصان نے حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کو گہری فکر میں مبتلا کر دیا۔ انہیں خدشہ تھا کہ اگر مزید حفاظ جنگوں میں شہید ہو گئے، تو قرآن کے محفوظ رہنے میں مشکل پیش آ سکتی ہے۔ اس خدشے کو دور کرنے کے لیے، انہوں نے قرآن مجید کو ایک کتابی شکل میں جمع کرنے کا حکم دیا، جو اسلامی تاریخ میں ایک انتہائی اہم قدم ثابت ہوا۔
جنگِ یمامہ کے نتیجے میں کئی اہم فوائد حاصل ہوئے۔ اس جنگ نے مسَیلمہ کذاب کے فتنے کا خاتمہ کیا اور اسلامی ریاست کے اتحاد کو بحال کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ، قرآن پاک کی تحریری شکل میں جمع بندی عمل میں آئی، جو اسلام کے تحفظ کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہوئی۔ اس جنگ سے مسلمانوں نے دفاعی حکمت عملی اور قیادت کے اصولوں کے بارے میں قیمتی اسباق سیکھے، جو بعد میں اسلامی فتوحات کے لیے مددگار ثابت ہوئے۔
جنگِ یمامہ نہ صرف ایک فوجی کامیابی تھی بلکہ اسلامی تاریخ میں ایک فیصلہ کن موڑ بھی ثابت ہوئی۔ اس جنگ نے ثابت کر دیا کہ ابتدائی مسلمان اپنے ایمان کے دفاع کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار تھے۔ اس جنگ میں مسلمانوں کی قربانیوں نے اسلامی ریاست کو مستحکم کیا، قرآن کی حفاظت کو یقینی بنایا، اور آنے والی نسلوں کے لیے دین کو محفوظ کر دیا۔ حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی قیادت اور اسلامی فوج کی بہادری نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اسلام کا پیغام دنیا بھر میں پھیلنے کے لیے ایک مضبوط بنیاد حاصل کر لے۔
Leave a Reply