تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور۔
پیارے قارئین!۔ زندگی رب کریم کی طرف سے انتہائی قیمتی متاع ہے۔اس کی رعنائیاں متاع درد اور احساس کے دریچوں کی خوبصورتی سے ہے۔ اچھے جذبات اور احساسات سے زندگی کی خوبصورتی اور رنگینی ممکن ہے۔حسن اخلاق کے پھول اور احساس کے شگوفوں کی خوشبو سے دل کے گوشوں میں ایک رونق ہوتی ہے۔بھلائی اور نیکی کی دولت سے زندگی کا سفر خوب سے خوب تر بن سکتا ہے۔مقام شوق کے زمزمے تبھی پھوٹتے ہیں جب انسانیت کا احترام اور خلوص کی انتہا ہو۔زندگی کا سفر با مقصد اور فلاح انسانیت کی تڑپ سے گزرے تو انتہائی مسرت اور شادمانی کے پھول کھلتے ہیں۔ دوسروں کی خواہشات کا احترام کرنا اور ان کی ضروریات پوری کرنا ہی تو انسانیت کی قدر اور وقار ہے۔بقول شاعر:-
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
مشکل وقت میں مساٸل کے حل کرنے میں کردار ادا کرنا انسانیت کی سب سے بڑی خدمت ہے۔درد مند لوگ تو سماج اور معاشرے میں انسانیت کے کام آتے ہیں۔بھلاٸی کے کام کرتے ہیں۔محبت اور رواداری سے پیش آتے ہیں۔یہ سب پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ کی تعلیمات کا اثر تھا کہ کاٸنات کا روپ ہی بدل گیا۔بقول شاعر:-
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
گویا انسانیت کو بحر ظلمات سے نکال کر روشنی سے آگاہ کیا۔ایک لگن اور تڑپ سے آگاہ کیا۔صبر اور شکر کی اہمیت بتاٸی۔حسن اخلاق اور حسن اسلوب سے زندگی کا سفر طے کرنے کا درس دیا۔گویا انسانیت کے لیے بھلاٸی اور نیکی کے کاموں کو اہم قرار دیا اور ایک بے مثال دستور العمل سے بھی آگاہ فرمایا۔
بقول شاعر:-
فقیروں کا ملجا٬ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولٰی
گویا ایسی زندگی کا تصور آپؐ نے پیش فرمایا جس میں بھلاٸی اور نیکی کی جھلک بہت نمایاں ہے۔اس کے مطابق زندگی بسر کرنا کامیابی ہے۔ انسانیت کی خدمت تو سب سے بڑی بھلائی ہے۔نیکی کا رجحان پیدا کرنا تو انسانیت کے لیے سب سے بڑی بھلائی ہے۔زندگی کے آداب اور اصول بھی ضروری ہیں جن پر عمل کرتے کامیاب زندگی کی مثال بن سکتی ہے۔ یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں بھی ہے
نوجوان کسی بھی ملک اور قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ نظریات کے پاسبان و محافظ بھی ہوتے ہیں۔ نیکی کا شعورتعلیم کے ذریعے ان میں پیدا کیا جا سکتا ہے اور تربیت اسلامی کےخطوط پر عمل کرنے کا احساس ان میں اجاگر کیا جا سکتا ہے۔بقول اقبال:.
جوانوں کو میری آہ سحر دے
ان شاہین بچوں کو بال وپر دے
شاعر مشرق علامہ اقبال کی ایک نظم دعا میں ایک خوبصورت بات پوشیدہ ہے کہ نوجوان ہی قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں جو تعمیر ملک و ملت میں تاریخ ساز کردار ادا کرتے ہیں۔بھلائی اور نیکی کا درس تو درسگاہوں سے ملتا ہے۔اس لیے تعلیم و تربیت ایسے خطوط پر کی جاۓ جن سےدین سے محبت،ملک سے پیار،والدین کی خدمت،انسانیت کا احترام ، اور تقاضے سمجھے جا سکیں ۔ جوانوں کو سرشار رکھتی ہے۔مجموعی طور پر تعلیم ہی سماجی شعور،تجدید عہد اور احساس بیدار کرتی ہے۔اس لیے ہر فرد کے لیے ضروری ہے کہ بھلائی کی بات احسن طرز پر کرے اور احساس کے دریچوں سے دل کے آنگن کو سجا کر رکھے۔
تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
رابطہ۔03123377085
Leave a Reply