تازہ ترین / Latest
  Monday, March 10th 2025
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

جزبوں کے احساس کی شاعرہ

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Thursday, March 6th, 2025

شازیہ عالم شازی 22 جولائی کو روشنیوں کے شہر کراچی میں پیدا ہوئیں۔ نام شازیہ عالم ہے جبکہ شازی تخلص رکھتی ہیں۔ شازیہ عالم نے ابتدائی تعلیم کراچی میں حاصل کی اور تعلیم کے دوران ہی نجی کمپنی میں ملازمت کا آغاز بھی کردیا تھا۔شازیہ عالم کو بچپن ہی سے ایک علمی ماحول دستیاب تھا انہوں نے اسکول کے دور سے لکھنے کا آغاز کردیا تھا ابتداء میں نثر اور بچوں کی کہانیاں لکھیں جو مختلف اخبارات میں شائع ہوتی رہیں۔ شاعری کا باقاعدہ آغاز 2000 میں ہوا۔ ابتدائی طور پر جو لکھا اسے ڈائری میں محفوظ کیا ۔۔۔ یہ شعری سفر بلاخر 2020 میں “سمندر رازداں میرا” کے شعری مجموعہ کی صورت عوام تک پہنچا تو خصوصاً نوجوان طبقہ میں خاصا مقبول ہوا شازیہ عالم شازی کا کلام عام فہم، سادہ بیانی، معنویت اور موسیقیت سے پھرپور ہونے کی وجہ سے جلد ہی زبانِ زد عام ہوگیا۔ ان کی شاعری میں انسانی جذبات کی مکمل عکاسی نظر آتی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ جلد ہی شاعری کے کینوس پر معروف،اور بہت پسند کی جانیوالی شاعرہ کے طور پر میدانِ ادب میں نمایاں مقام حاصل کر گئیں۔ شازیہ عالم پاکستان اور پاکستان سے باہر کئی ادبی تنظیموں کی جانب سے زووم اور فرشی مشاعروں میں بلائی جاتی ہیں پاکستان سے باہر براعظم یورپ بلخوص جرمنی میں انھیں امتیازی مقام و شُہرت حاصل ہے۔ شازیہ عالم شازی محبت کے انمول جذبوں کی ایک خوبصورت شاعرہ ہیں کہ جس کے لب و لہجہ میں کبھی شیکپیئر کی جولیٹ محبت بھرے جذبات میں ملتی ہے تو کبھی رقص کرتی پنجاب کی ہیر تو کبھی سندھ کی سسی گیت گاتی نظر آتی ہے۔ شازیہ عالم شازی دکھ کے احساسات کو بھی مٹھاس سے لکھنے کا فن جانتی ہیں ان کی پہلی کتاب “سمندر رازداں میرا” محبت کے رنگوں اور چہچاتے پرندوں کے میٹھے سروں کی ایک مکمل ملیوڈی ہے جس کے نغمے کبھی صبح کی چھٹتی دھند میں چڑیاں گنگناتی ہیں تو کبھی ڈھلتی شام کا پتا دینے کوئل ۔۔ کہا جاتا ہے کہ برصغیر پاک وہند کی فلم انڈسٹری میں آج تک کوئی باقاعدہ خاتون نغمہ نگار موجود نہیں، سید نور کی پہلی بیوی رخسانہ نور نے چند ایک فلموں میں گیت لکھے مگر وہ اس کے بعد پس منظر سے یکسر غائب ہوگئیں ان کی گیت نگاری یا شاعری کے بارے میں مححقین بھی سر دھونتے ہیں کہ صرف دوتین فلموں کے لیئے انھوں نے شاعری کیوں کی؟ اس سے پہلے اور بعد کی شاعری کہاں ہے ؟ اس حوالے سے بہرحال انھیں ایک مکمل نغمہ نگار یا شاعرہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔آج کل کمرشل اور مار ڈھار کی فلمیں بن رہی ہیں اگر پھر رومانس سے بھرپور فلمیں بنے لگیں تو پھر سے انڈو پاک کی فلموں میں گیتوں کا دور واپس لوٹ آ سکتا ہے۔ شازیہ عالم کی شاعری میں وہ تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں جو انھیں برصغیر کی پہلی مکمل نغمہ نگار بنا سکتی ہے ۔۔ یہ دعویٰ میں صرف میں اپنے تحقیق پر نہیں کر رہا بلکہ اس کے پیچھے ایک مکمل سند موجود ہے ۔۔ جس کی تفصیل میں آگے بتاوں گا۔۔
اب کچھ نغماتی غزلوں کا مشاہدہ کرتے ہیں جیسے۔۔
“وفا دل میں جگا کر دیکھ لیجیے
مجھے مجھ سے چرا کر دیکھ لیجیے”
“ہوائیں گنگناتی ہیں اگر ہم تم سے ملتے ہیں
وفا کے گیت گاتی ہیں اگر ہم تم سے ملتے ہیں”
“دل کے نگر میں آیا اور آ کر چلا گیا
مجھ میں وفا کے پھول کھلا کر چلا گیا”
“اک خوشی کی تلاش رہتی ہے
زندگی کی تلاش رہتی ہے”
“دھڑکنوں کو بنا رہی ہوں چراغ
دل گلی میں جلا رہی ہوں چراغ”
اس کے علاوہ اور بہت سی غزلیں ایسی ہیں جن کی خوبصورت دھنیں تیار ہوسکتی ہیں۔ نظم “سمندر رازداں میرا” کو کسی ڈرامہ کی تھیم سانگ کے طور پر لیا جاسکتا ہے اس میں نظم میں بھرپور میلوڈی موجود ہے شازیہ عالم کی شاعری میں قدرتی طور پر موسیقی کی خوبصورت چاشنی ملتی ہے اس بات کا ثبوت میں یوں پیش کروں گا کہ یہ جولائی 2021 کی بات ہے ایک دن میں اپنے دوست محمد علی کے گھر ملنے گیا جن کے دادا(استاد مختار علی خان) جو مشہور موسیقار نثار بزمی اور میرے پھوپھا گلوکار شرافت علی خان کے مشترکہ دوست بھی رہے تھے وہ خود باقاعدہ موسیقار تو نہیں تھے مگر موسیقی کے رموز سے آگہی کی وجہ سے خود بھی دھنیں تیار کیا کرتے تھے ان کے پاس بہت سے گلوکار و موسیقار جن میں محمد علی شہکی، سجاد علی اور تحسین جاوید جیسے گلوکار بھی اپنی دھنیں بنوانے آیا کرتے تھے۔۔
کہا جاتا ہے کہ وہ جب پاکستان کے لیئے ہجرت کر رہے تھے مشہور انڈین موسیقار خیام صاحب نے ان کے گھر کو باہر سے تالا لگا دیا تھا جس کا مقصد تھا کہ وہ ہندوستان میں رہ کر موسیقی میں خدمات انجام دے سکیں مگر استاد مختار علیخاں پاکستان سے محبت میں سب اپنا کچھ چھوڑ چھاڑ پاکستان آ بسے اور پھر تمام عمر گمنام ہو رہے مگر وہ موسیقی کے رموز بلا معاوضہ لوگوں کو ضرور بتایا کرتے تھے میں انھیں چھوٹے ابا میاں کہتا تھا۔۔ وہ خاندان بھر میں اسی نام سے معروف رہے۔ انہی دنوں شازیہ عالم نے کتاب “سمندر راز داں میرا” مجھے تحفتاً ملی تھی جبکہ شازیہ عالم سے میری ان سے اس وقت زیادہ شناسائی نہیں تھی نہ ہی میں ان کو ٹھیک سے جانتا تھا اور نہ ہی میں نے ان کی شاعری کو پڑھا تھا۔ جب استاد مختار علیخان صاحب سے ملاقات کے دوران نئے شاعروں کی شاعری اور موسیقی پر بات نکلی تو میں نے بیگ میں موجود “سمندر راز داں میرا” انھیں پیش کردی اور کہا کہ زرا انھیں بھی چیک کریں۔ انہوں کتاب درمیاں سے کھولی پھر کچھ صفحات پلٹتے گئے اور یوں لگا کہ وہ کسی گیان میں چلے گئے ہیں کچھ دیر بعد میں نے پوچھا سر کیا ان کی شاعری میں کچھ موسیقی نظر آئی۔۔ تو انہوں نے مسکرا کر کتاب مجھے واپس کی اور کہا میں بوڑھا ہوچکا ہوں اب دھنیں نہیں بنا سکتا مگر مجھے معلوم ہے تم بھی موسیقی کو خاصا جانتے ہو راگ ملہار کا نام سنا ہے؟ میں نے کہا جی راگ ملہار موسیقی کا سب میٹھا راگ ہے۔۔ انہوں نے کہا۔۔ تم نے درست جواب دیا ۔۔ تو میاں یہ کتاب کہیں سے بھی کھولو اور راگ ملہار میں گاتے چلے جاؤ۔۔۔۔ اوپر کہی ہوئی خاتون نغمہ نگار کی بات بھی استاد مختار علی خاں صاحب نے ہی کہی تھی۔جس کا علم تا دمِ تحریر تک شازیہ عالم کو بھی پہلی بار ہونے جا رہا ہے۔ ان کی یہ بات بالکل درست ثابت ہوئی کیوں کہ اس کے بعد میں نے شازی کی کئی غزلوں کی دھنیں بنائیں اور ریکارڈ کرکے انھیں بھی سنائیں بھی تھیں۔
شازیہ عالم صرف محبت کی شاعرہ ہی نہیں بلکہ ان کے اندر انسانیت سے پیار کرنے والا دل بھی دھڑکتا ہے میں نے بہت سے شاعروں کو پڑھا جنہوں نے دکھی انسانیت کے موضوع پر بے حد دلگداز شاعری کی مگر یہ وہ شاعری تھی جسے شاعر کی آنکھ نے دیکھا یا اس کے دل نے محسوس کیا وہ انہوں نے رقم کیا مگر اس حوالے سے شازیہ عالم کا معاملہ قطعی مختلف ہے کیونکہ وہ غریبوں، مظلوموں اور ناداروں لوگوں کے دکھ کو محض قلمبند نہیں کرتیں بلکہ ان کے پاس بیٹھ کر ان کے دکھ سنتی بھی ہیں اور اس کا مداوا کرنے کی کوشش بھی کرتی ہیں۔ سنا ہے جس دور میں بچے کھلونے یا کتابیں جمع کرنے کے لیئے اپنے پیسے جمع کرتے تھے شازیہ عالم اُس دور میں اپنے غریب دوستوں کی مدد کرنے کے لیئے پیسے جوڑتی تھیں۔ یعنی وہ پیدائشی طور پر شاعرہ کے ساتھ ساتھ ایک شوشل ورکر بھی تھیں۔ شازیہ عالم اب ایک مشہور شاعرہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک معروف سماجی شخصیت بھی ہیں۔ ہم مختلف اخبارات میں انکی سماجی خدمات سے متعلق سرگرمیاں پڑھتے رہتے ہیں۔شازیہ عالم شازی قومی اور بین الاقومی مشاعروں کراچی کی نمائندگی کرتی رہتی ہیں۔عرصہ قبل یورپ کے دورے سے وہ کامیابیاں شہرت سمیٹ کر لائی ہیں۔ بین الاقوامی زوم مشاعروں میں بھی ان کی شرکت ناگزیر سمجھی جاتی ہے۔ ان کا پہلا “شعری مجموعہ” *سمندر راز داں میرا” 2020 میں شاندار پذیرائی حاصل کرچکا ہے۔ اور عنقریب ان کا دوسرا مجموعہ کلام ” پلکوں پہ سجے خواب” پر ان شاء اللہ جلد منظر عام پر آنے والا ہے ۔ شازیہ عالم شازیہ شاعرہ ہونے کے ساتھ ساتھ اخبارات میں کالم اور ضامین بھی تواتر سے لکھتی ہیں اس کے علاوہ ان کے نئے اسلوب کے سفر نامے بھی ان کے زیرِ قلم آچکے ہیں ۔ شازیہ عالم شازی بہت سی قومی اور بین الاقوامی تنظیموں میں کلیدی نمائندگی کرتی ہیں۔وہ روٹری کلب ڈسٹرک کراچی 3271 کی صدر ہیں جبکہ جرمنی کی تنظیم “ہم ہیں پاکستان” نے انھیں اپنا چیف ملٹی کلچرر آرگنائزر بھی مقرر کیا ہے ادبی خدمات کے سلسلے میں انہوں نے 22 مئی 2022 کو ادبی تنظیم “جہانِ رنگ انٹرنیشنل” کی بنیاد رکھی جو اب دو سال مکمل ہونے تک ایک بھرپور فعال ادبی تنظیم کی صورت میں سامنے آئی ہے شازیہ عالم شازی اس تنظیم کی چیئرپرسن بھی ہیں۔
شازیہ عالم شازی بہت سے شوشل اور ادبی ایوارڈز اپنے نام کرچکی ہیں ان کی شاعری مشہور ویب سائٹس پر موجود ہے جس میں ریختہ ، پنچ کام، موجِ سخن اور اردو محفل شامل ہیں۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International