ہمسایہ? ، ماں جایا،? اس سے دعا سلام ہے؟ ، رشتہ داری ہے؟ ، ذات برادری سے ہے؟ کیا طب کی کسی لڑی کا دانا ہے کہ ہم. نے میڈیکل جیسی مشکل پڑھائی کے مشکل ترین سال اکٹھے ہی ایک کشتی کے سوار کی حیثیت سے بتاے ہوے ہوں، مقولہ ہے ناں کہ ساتھ میں ہنسنے والوں کو بھلایا جا سکتا ہے لیکن ساتھ بیٹھ کے رونے والے روم روم میں بس جاتے ہیں. کوی شاعر، افسانہ نویس یا کالم نگار ہے؟ مجھ سے اس کا واسطہ میری کسی مریضہ کے توسط سے ہوا. یہ ایک دلچسپ داستان ہے میں پڑھنے لکھنے کے شوق کے ساتھ ہی پیدا ہوی تھی والدین کی پہلوٹھی کی اولاد باپ نے مسکراتے ہوے گود میں لیا کان میں اذان دی، پونم نام رکھا اور بڑے مان سے سب کو کہا میری بیٹی بڑی ہو کر ڈاکٹر بنے گی، بڑی
بیٹی نے بڑے لاڈ سے باپ کے مان کا مان رکھا ہاں بیٹی کو کسی بھی دھن سے زیادہ ایک اچھا انسان بننے کی دھن تھی اورلکھنے پڑھنے کے شوق کی آبیاری بھی ساتھ ساتھ جاری رہی وہ دنیا اور بحیروں کی بے کراں لہروں میں سے ہچکولے کھاتی کھاتی کناروں تک جا پہنچی، نظمیں، غزلیں، کالم،افسانے،بچوں کی کہانیاں، کیا کیا نہ لکھا اپنے من کو راضی کرتے کرتے اسے پتا ہی نہ چلا کہ اس کا لکھا ہوا سرحدوں کو پار کرتا ہوا ہمسایہ ملک کی ریاست مہاراشٹر میں ڈنگلور کے ایک ہنستے مسکراتے گھر آنگن تک جا پہنچا ہے، جہاں ادب کی ایک ایک رمز سے واقف تقریباً دو ہزار سے زاید کتب کا مطالعہ کر لینے والے، ایک ماہر، مستند، زیرک اور قابل احترام استاد جناب سدی رشید حسین دیش مکھ جی، جو اردو اور فارسی میں یکساں مہارت رکھتے ہیں اور جن کے بحیرہ ادب و علم سے ہزاروں طلبا و طالبات مستفید ہو چکے ہیں، اور پوری دنیا میں اپنے استاد محترم کی جلای ہوی شمع کو مزید روشن کرتے جا رہے ہیں تو وہ قابل استاد جن کے والد محترم جناب سدی محمد حسین نے تقریباً تیس سال تک ڈگلور شہر کی جامع مسجد میں امامت کے فرائض سر انجام دیے اور سلام اور خراج تحسین ان والدین کو جنہوں نے اپنے بیٹے رشید دیش مکھ کی اتنی اچھی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا کہ نہ صرف ان کی نگاہ میں خواتین کا احترام ہے بلکہ وہ اردو ادب کی ترقی و ترویج کے لیے بھی دن رات کوشاں ہیں وہ سوشل میڈیا پہ خواتین شاعرات اور افسانہ نویسوں کی حوصلہ افزائی میں کوئی کمی نہیں چھوڑتے. یہ اردو ادب سے ان کی محبت کی انتہا ہے. مولانا مودودی کی صحبت میں رہ کر پروان چڑھنے والے رشید دیش مکھ جی نہ میرے ہمسائے ہیں نہ ماں جاے مگر ان کے اندر کی سچائی بالکل بچوں جیسی پراثر، دلآویز اور معصومیت سے پر ہے اور اس سچای میں اتنی طاقت ہے کہ مجھے للہ ایسا ہی لگا گویا میں رشید دیش مکھ بھائی کی صورت میں اپنے کسی بھای یا بہن سے مل رہی ہوں،
اس نے اس خلوص سے پکارا تھا
پھر میرا بولنا تو لازم تھا
تو سدی بھای تقریباً ایک سال سے میرے لکھے پڑھے پہ رواں تبصرے کر رہے تھے میرے لکھے کو اپنے پیج پہ لگا رہے تھے، اپنے طالب علموں کو جماعت میں وایٹ بورڈ پہ لکھ لکھ کر تشریح کر رہے تھے اور ان کی خوبصورت شریک حیات عصمت جی، پیاری بیٹی حوریہ تبسّم جب مجھے بتاتی ہیں کہ میری غزل پونم کی رات میں پڑھ کر میرے بابا جھوم اٹھے تو اشکوں کا سیل رواں پلکوں کے بند توڑ دیتا ہے.
سرحد پار
اک جھڑی تھی اس طرف
تو دوسری تھی اس طرف
میں خلوص مانتی ہوں
سرحدوں سے بالا ہوں
اپنی دھن میں مست ہوں
ہاتھوں کا چھالا ہوں میں
رشید دیش مکھ جی کے پانچ پیارے پیارے بچے ہیں بڑی بیٹی ماریا ڈاکٹر ہیں دوسری اسری دیش مکھ جی ہیں تیسرے نمبر پہ ثنا دیش مکھ چوتھے نمبر پہ بیٹا ہے جس کا نام انس دیش مکھ ہےاور سب سے چھوٹی بیٹی کا نام عمارہ دیش مکھ ہے میری خدا سے دعا ہے کہ یا اللہ ان نیک پاک روحوں کو ایسے ہی ہنستا، مسکراتا اور شاداب رکھنا. آمین ثم آمین.
محبتوں کے امین
یہ سدی رشید ہیں
یہ محبتوں کے امین ہیں
ان کے آنگن میں
سکھ، شادابی رکھنا
دکھ کے بادل یہاں نہ آءیں
آنگن کرے نہ سایں سایں
اور آخر میں بس اتنا ہی کہوں گی کہ دیش مکھ بھائی صاحب آپ کے لکھے ہوے الفاظ جو آپ نے میرے کلام اور تحریروں پہ تبصرے کی شکل میں لکھے ہیں میرے لیے میری زندگی کا سب سے بڑا اثاثہ ہیں اور دنیا کے کسی بھی بڑے ایوراڈ سے بڑھ کر ہیں. سدی رشید دیش مکھ بھائی جیسا بڑے دل والا نہ کوی بھائی ہو سکتا ہے اور نہ ہی پونم نورین گوندل جیسی خوش نصیب کوی دوسری بہن.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendrpunnam@gmail.com
Leave a Reply