تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com
روس اور یوکرین جنگ کو شروع ہوئے تقریباتین سال ہو چکے ہیں اورجنگ اب بھی جاری ہے۔اس جنگ کے اثرات پوری دنیا پر پڑ رہے ہیں۔یوکرین روس کے مقابلے میں کمزور ملک ہےاور مقابلہ جاری رکھنے کے لیےنیٹو کی طرف سے امداددی جا رہی ہے۔یوکرین کو بھی اچھی طرح علم ہے کہ اکیلا وہ روس کے ساتھ نہیں لڑ سکتا۔یوکرینی صدرولادیمیر زیلنسکی کی طرف سے اعتراف کیا جا چکا ہے کہ امریکہ کی امداد کے بغیر جنگ چند دن تک بھی جاری نہیں رہ سکتی۔امریکہ نےیوکرین کی معدنیات میں سے حصہ مانگ لیا،لیکن یوکرین کی طرف سے انکار کر دیا گیا۔28 فروری 2025 کو امریکہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرینی صدر ولادیمیر زلنسکی کے درمیان ملاقات ہوئی اور یہ ملاقات تلخی میں بدل گئی۔یوکرینی صدرنے امریکی صدر کے مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیااور ان کے جھگڑے کےمکالمےدنیا بھرمیں دیکھے گئے۔زیلنسکی اور ٹرمپ کے درمیان تناؤ پیدا ہوا اور اس تناؤ نےدونوں ممالک کے درمیان فاصلے پیدا کر دیے۔امریکی صدر نےزیلنسکی کو تیسری جنگ شروع کرنے کے لیے ذمہ دار قرار دے دیااور امریکہ کی طرف سےدی جانے والی امداد کو بھی بند کر دیا۔امریکی امداد کی بندش یوکرین کے لیےشدید تشویش کا سبب بنی،کیونکہ بغیر امریکی امداد کےجنگ جیتنا تو درکنار،چند دن تک یوکرین اپنا دفاع بھی نہیں کر سکتا۔اس ماحول کی تلخی میں فرانس،برطانیہ اور نیٹو میں شامل ممالک نےیوکرین کے ساتھ کھڑا ہونے اور امداد میں اضافےکا اعلان کر دیا۔دوسری طرف امریکہ اور روس کے درمیان تعلقات بہتر ہونے کے اشارے ملنا شروع ہو گئے۔روس اور امریکہ کے درمیان خراب تعلقات کئی دہائیوں سے جاری ہیں۔امریکہ کی طرف سے ایسے اعلانات ہو رہے تھے کہ روس اور یوکرین کی جنگ بندی ہونے والی ہے،حالانکہ اس وقت تک امریکی صدر اور یوکرینی صدر کے درمیان تلخی پیدا نہیں ہوئی تھی۔یوکرین اور یورپی یونین کو بھی امریکی اعلانات کی طرف سے تشویش پیدا ہو گئی تھی کیونکہ یہ واضح ہو رہا تھا کہ روس اور یوکرین کی جنگ بندی میں یورپی یونین کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔یورپی یونین اور یوکرین نےان مذاکرات کو مسترد کرنے کا اعلان کر دیا جن میں ان کومدعو نہ کیا گیا ہو۔امریکہ کا نیٹو سے نکلنا،صرف یوکرین کے لیے نہیں پورے یورپ کے لیے بھی جھٹکا ثابت ہو سکتا ہے۔نیٹو کے تقریبا 90 فیصد اخراجات امریکہ ادا کرتا ہے۔
یوکرینی صدر کواپنی کمزورپوزیشن کا اچھی طرح احساس ہےاور امریکہ سے مخالفت مول لینا،یوکرین کو شکست دینے کے مترادف ہے۔امریکی امداد کے بغیرروس آسانی سے یوکرین کو شکست دے سکتا ہے۔امریکہ کے مطالبات کے آگےیوکرین کو سر جھکانا ہی پڑا۔سعودی عرب کے شہر جدہ میں،سعودی ثالثی میں امریکہ اور یوکرین کےوفود کے درمیان مذاکرات ہوئے۔آٹھ گھنٹوں سے زائد ہونے والے مذاکرات میں امریکی وفد اور یوکرینی وفد کے درمیان مذاکرات ہوئے،جس میں ایک ماہ کی عارضی جنگ بندی کا فیصلہ ہوا۔امریکی وفد کی قیادت امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کر رہے تھے۔تیس روز کی عارضی جنگ بندی کو یوکرین نےقبول کر لیا۔یوکرین کی طرف سے کہا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر روس کے ساتھ تیس دن کی جنگ بندی کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ایک ماہ کی جنگ بندی کی تجویز امریکہ کی طرف سے پیش کی گئی ہے۔ان مذاکرات کے بعد امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ اب گیند ان(روس)کےکورٹ میں ہے۔زیلنسکی نے کہا کہ اب یہ امریکہ پر منحصرہے کہ روس کو جنگ بندی کی اس مثبت تجویز پر راضی کرے۔امریکہ اور یوکرین کے درمیان معدنیاتی ذخائر سے متعلق جامع معاہدے کو بھی جلد از جلد حتمی شکل دینے پر بھی اتفاق ہوا ہے۔یوکرین کے پاس قیمتی معدنیات کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔بڑے نقصان کے عوض چھوٹی سی قربانی دینا فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔معدنیات ملک کی تباہی سے زیادہ قیمتی نہیں اور شکست کی صورت میں یوکرین کو معدنیات سمیت ہر چیزکو کھونا پڑے گا۔امریکہ کے ساتھ معاہدہ کرنا یوکرین کی مجبوری ہے۔امریکہ نےفوری طور پریوکرین کی امداد بحال کرنے کا بھی اعلان کر دیا۔مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ فوری طور پر اینٹلی جنس معلومات کے تبادلے پر عائدپابندیاں ختم کرے گا اور یوکرین کے لیے سیکورٹی معاونت دوبارہ شروع کرے گا۔یہ دونوں اقدامات 28 فروری کو وائٹ ہاؤس میں یوکرینی صدر ولادی میرزیلنسکی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان تلخ مکالمات کے بعدمعطل ہو گئے تھے۔امریکہ اب روس پر دباؤ ڈالے گا کہ وہ عارضی جنگ بندی کی تجویز کو قبول کر لے۔اس بات کا بھی امکان بڑھ گیا ہے کہ عارضی جنگ بندی کی بجائےمکمل جنگ بندی کامعائدہ ہو جائے۔سعودی عرب کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں۔سعودی عرب کو مشرق وسطی میں بھی امن کے لیے کام کرنا چاہیے۔
اب یہ روس پر منحصر ہے کہ وہ عارضی جنگ بندی کو قبول کرتا ہے یا نہیں؟روس یقینا اپنے مفاد کے مطابق فیصلہ کرے گا۔روس نےیوکرین کا تقریبا بیس فیصد علاقہ اپنے قبضے میں کر لیا ہے۔کیا جنگ بندی کی صورت میں یوکرین کو اپنا علاقہ واپس مل جائے گا؟ہو سکتا ہے جنگ بندی کی شرائط میں علاقہ واپس نہ کرنے کی شرط موجود ہو۔امریکہ یوکرین کو تودباؤ میں لا سکتا ہے لیکن روس کو دباؤ میں نہیں لایا جا سکتا۔ہو سکتا ہے روس بطور ہرجانہ یوکرین سے رقم یا معدنیات کا مطالبہ کر دے۔روس کو اپنی طاقت کا اندازہ ہے، کیونکہ تین برس تک یوکرین اور اس کے اتحادیوں سے جنگ لڑنا آسان کام نہیں۔اس جنگ میں ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔روس کےفوجی بھی بڑی تعداد میں ہلاک ہوئےہیں۔یوکرین کا کافی علاقہ تباہ ہو چکا ہے۔جنگ کے بعد یوکرین کے لیےشہریوں کی بحالی بھی مشکل امر ہوگا۔ہو سکتا ہےروس مزید جنگ جاری رکھنے پر آمادہ ہواور یہ جنگ کئی سالوں تک پھیل سکتی ہے۔روس نے بھی جنگ اس لیے شروع نہیں کی تھی کہ بغیر مفاد کےجنگ بند کر دے۔روس کا اپنا بھی کافی نقصان ہوا ہے اور اس نقصان کو پورا کرے گا۔یہ دوسری بات ہے کہ وہ اس پوزیشن میں نہ ہو کہ اپنے مطالبات کو تسلیم کروا سکے۔زمین پر فساد کی بجائے امن بہترین عمل ہے۔اس جنگ کو روکا جائے،تاکہ مزید انسان قتل ہونے سے بچ سکیں۔یہ جنگ اگر تیسری عالمی جنگ میں تبدیل ہو گئی تو دنیا کے بڑے حصے کونقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔یہ بھی خدشہ موجود ہےکہ کہیں ایٹمی پاور کا استعمال نہ ہو جائے۔یوکرین کو بھی اتحادیوں کی طرف سےجوہری توانائی کے ہتھیار مل سکتے ہیں اور وہ روس کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔جوہری ہتھیار روس استعمال کرے یا یوکرین،دنیا کے لیےخاصہ خطرناک ہوگا۔امن کی بحالی کے لیےصرف یوکرین اور روس کی جنگ کا رکنا ضروری نہیں بلکہ مشرق وسطی سمیت جہاں بھی انسانوں کو جنگ یا تشدد کا سامنا ہے،وہاں جنگ اور تشدد کو روک کر امن کی بحالی کاکام شروع کر دیا جائے۔
Leave a Reply