Today ePaper
Rahbar e Kisan International

شہنشاہِ ظرافت کی یاد میں

Articles , Snippets , / Monday, April 21st, 2025

 

rki.news

عامرمُعانؔ

آج 22 اپریل کی صبح ہے ۔ یہ دن ہمیں 2011 کے ایک ایسے سانحہ کی یاد دلاتا ہے جب پاکستان کے نامور فنکار شہنشاہ ظرافت معین اختر پوری دنیا میں موجود ان گنت مداحوں کو روتا چھوڑ کر تہہ خاک کے مکیں ہو گئے ۔ ساری زندگی مداحوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے والا ایک پل میں سب کو رلا گیا ۔ فن کی دنیا میں کچھ ہی شخصیات ایسی ہیں جو محض فنکار نہیں ہیں، وہ ایک ادارہ، ایک تہذیب، ایک عہد کی علامت ہیں۔ معین اختر بھی انہی ہستیوں میں سے ایک تھے۔ ایک ایسا نام جس نے مزاح کو صرف ہنسی کا ذریعہ نہیں، بلکہ شعور اور تہذیب کا آئینہ بنا دیا۔ ان کی زبان شائستہ، لہجہ مہذب، اور مزاح باوقار تھا۔ وہ مزاح کے میدان میں ایسے شہنشاہ تھے جن کے سامنے الفاظ بھی جھک کر بات کرتے تھے۔ ان کی زندگی ایک قیمتی خزانے کی مانند تھی، جو فن، عقل، اخلاق اور محبت سے بھرا ہوا تھا۔
معین اختر نے 24 دسمبر 1950 کو کراچی میں آنکھ کھولی۔ وہ کراچی کے ایک متوسط گھرانے میں محمد ابراہیم کے گھر پیدا ہوئے۔ جن کا گھرانہ قیام پاکستان کے بعد بمبی سے ہجرت کر کے پاکستان کی محبت دل میں بسائے کراچی آ کر آباد ہو گیا تھا ۔ معین اختر کا بچپن سے ہی فنونِ لطیفہ کی طرف رجحان بہت زیادہ تھا اور وہ مختلف نجی محافل میں اداکاروں کی آوازیں نکال کر حاضرین محفل کو ششدر کر دیا کرتے تھے ۔ معین اختر اسکول کے زمانے سے ہی ہر فن مولا شخصیت کے طور پر مشہور تھے۔ وہ اسکول میں ہونے والی ہر تقریب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ۔ پھر وہ چاہے تقریری مقابلے ہوں یا ذہنی آزمائش کے مقابلے، وہ ہر ایک مقابلے میں نمایاں ہی نظر آتے ۔ اُن کی یہی خصوصیت انہیں صرف 16 سال کی عمر میں باقاعدہ ٹیلیویژن کی دنیا میں کھینچ کر لے آئی ۔ انہوں نے 1966 میں عید کی مناسبت سے منعقدہ ایک پروگرام میں ون مین شو کر کے خوب داد سمیٹی، اور پھر اُس کے بعد کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے معین اختر کا نام بامِ افق پر جگمگانے لگا،وہ ٹیلیویژن کی دنیا کا ایک چمکتا ستارہ بن چکے تھے جس کی روشنی چہار عالم کو روشن کر رہی تھی۔ اُن کو اندازہ تھا کہ بہت سے ستارے اس میدان میں بھرپور چمکے اور پھر گمنامی میں چلے گئے، وہ جانتے تھے کہ اس فن میں دوام حاصل کرنے اور زندہ جاوید رہنے کے لئے ہر فن مولا ہونا بہت ضروری ہے۔ اس بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے انہوں نے مزاحیہ اداکاری کے ساتھ ساتھ سنجیدہ اداکاری پر بھی بھرپور توجہ دی ۔ انہوں نے صداکاری کیساتھ ساتھ گلوکاری میں بھی نام کمایا۔ وہ اداکاری کرتے تو یہ بتانا مشکل ہو جاتا کہ معین اختر مزاحیہ اداکار زیادہ بہتر ہیں یا سنجیدہ اداکار ۔ پروگرام کی میزبانی کا بیڑا اٹھایا تو لوگ اس میدان میں بھی ان کی صلاحیتوں کے معترف ہو گئے، دیکھنے والوں کو یہ یقین ہو گیا کہ کوئی ان سے بہتر پروگرام کی میزبانی کر ہی نہیں سکتا۔ معین اختر مس روزی ڈرامے میں خاتون کے کردار میں پردہ اسکرین پر جلوہ افروز ہوئے تو لوگ حیران رہ گئے کہ اتنی جاندار اداکاری ، سب ناظرین ان کو دیکھ کر عش عش کر اٹھے ۔ ففٹی ففٹی پروگرام میں مختلف کردار نبھائے تو یوں نبھائے کہ ہر کردار میں ہی رنگ بھر دئیے ، پھر اُن کی جوڑی انور مقصود کےساتھ یوں بنی کہ جیسے انگوٹھی میں نگینہ پرو دیا گیا ہو۔ ان کا ہر پروگرام چاہے شوشا ہو یا اسٹوڈیو ڈھائی یا پھر لوز ٹاک ایسا لگتا تھا کہ معین اختر اپنے فن کی بلندیوں پر ہیں ، ہر کردار کو یوں ادا کرتے کہ ناظرین کو یہ ادراک ہوتا کہ اس سے بہتر کوئی یہ کردار ادا نہیں کر سکتا ، اور مداحوں کی یہی محبت معین اختر کی کامیابی کی دلیل تھی ۔ معین اختر کو کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا، جن میں اردو، انگریزی، پنجابی، سندھی، پشتو، گجراتی، بنگالی اور دیگر زبانیں شامل تھیں۔ وہ کردار کرتے ہوئے ان زبانوں کے لب و لہجے اور ثقافتی انداز کو اتنی خوبصورتی سے اپناتے کہ لگتا وہ اسی زبان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کا مزاح کسی بھی روائتی فحش گوئی یا پھکڑ پن سے پاک ہوتا تھا ، اتنی نفاست سے مزاحیہ جملہ کہنا کہ اس کی چاشنی تا دیر برقرار رہے معین اختر کا ہی خاصہ تھا ۔ معین اختر نے ٹی وی اور اسٹیج کی دنیا میں اپنا جادو جگا کر بڑی اسکرین کی فلمی دنیا میں بھی اپنا جادو جگایا ۔ حکومتِ پاکستان نے ان کی لازوال پرفارمنسز پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے انہیں اعلیٰ سول اعزازات پرائیڈ آف پرفارمنس 1996 اور تمغہ حسن کارکردگی 1999 سے بھی نوازا۔ معین اختر کی شخصیت نئے آنے والے فنکاروں کے لئے ایک اکیڈمی کا درجہ رکھتی ہے۔ ان کی پرفارمنسز دیکھ کر یہ سیکھا جا سکتا ہے کہ ایک صاف ستھرا مزاح کیسے اور کس خوبصورتی سے سننے اور دیکھنے والوں کو اپنا گرویدہ بناتا ہے، کیسے انسان کی ایک شخصیت میں چھپے ہر ہر رنگ کی خوبصورتی کو واضح کیا جاتا ہے۔ معین اختر کی شادی کم عمری میں ہی ہو گئی تھی۔ ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ وہ ایک شریف النفس، عاجز، اور نرم گو انسان تھے۔انہوں نے اپنی نجی زندگی کو ہمیشہ میڈیا سے دور رکھا اور شہرت کے باوجود سادگی اور انکساری کو اپنا شعار بنائے رکھا ۔ یہ نگینہ فنکار دل کے جان لیوا دورہ کی وجہ سے 22 اپریل 2011 کو اس جہان فانی سے کوچ کر گیا اور اپنے مداحوں کو داغِ مفارقت دے گیا ۔ ان کی وفات پر پورے ملک میں افسوس کی فضا طاری رہی حکومتی سطح پر ان کی پورے اعزاز کے ساتھ تدفین کی گئی، ٹی وی پر تعزیتی پروگرام نشر کئے گئے اور اخبارات میں مضامین شائع کر کے ان کو شاندار خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ۔ معین اختر ایک ایسا نام ہے جو نہ صرف فن، بلکہ تہذیب، شائستگی، اخلاق، اور معاشرتی شعور کی علامت بن چکا ہے۔ ان کی خدمات اور فن کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
22 اپریل 2011 کو جب معین اختر نے ہمیشہ کے لیے خاموشی اختیار کی، تو ایسا محسوس ہوا جیسے پورے پاکستان کا قہقہہ رک گیا ہو، جیسے اسٹیج کے پردے کے پیچھے اندھیرا چھا گیا ہو۔ شہنشاہِ ظرافت کی موت صرف ایک انسان کا رخصت ہونا نہیں تھا، یہ ایک عہد کا خاتمہ تھا، ایک تہذیب کا ماتم تھا۔ لیکن معین اختر کی باتیں، ان کے کردار، ان کے لطائف ، ان کی نرم مسکراہٹ ، یہ سب آج بھی زندہ ہیں، اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ کیونکہ سچے فنکار مرتے نہیں، دلوں میں زندہ رہتے ہیں


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International