rki.news
(تحریر احسن انصاری)
ہر سال 21 اپریل کو ہم ایک ایسی شخصیت کی برسی مناتے ہیں جو نہ صرف اردو ادب میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہے بلکہ ایک قوم کے احساسات کو بھی بیدار کرنے والے رہنما تھے۔ یہ شخصیت ہیں علامہ اقبال، جو ایک عظیم شاعر، فلسفی اور قوم کے رہنما تھے۔ ان کی زندگی اور کارنامے آج بھی ہماری رہنمائی کرتے ہیں اور ہمیں اپنی شناخت اور خودی کی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں۔
علامہ اقبال کی پیدائش 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام شیخ نور محمد تھا، جو ایک مذہبی اور دیندار شخص تھے۔ اقبال نے ابتدائی تعلیم اپنے ہی شہر میں حاصل کی اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور کے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا۔ انہوں نے فلسفہ، ادب، اور تاریخ میں مہارت حاصل کی اور بعد میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انگلینڈ اور جرمنی کا سفر کیا۔ اقبال کی تعلیم نے ان کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے، اور انہوں نے اپنے تجربات کو اپنی شاعری میں خوبصورتی سے پیش کیا۔
علامہ اقبال کی شاعری کا آغاز فارسی زبان سے ہوا، جہاں انہوں نے اپنی پہلی کتاب “اسرار خودی” لکھی۔ یہ کتاب فلسفہ خودی پر مبنی تھی اور اس میں انہوں نے انسانیت کی اعلیٰ ترین شکل کی تلاش کی۔ اقبال کی شاعری میں خودی، قومیت، اور روحانی بیداری کے موضوعات غالب ہیں۔ ان کی مشہور کتابوں میں “بانگِ درا”، “شکوہ”، “جوابِ شکوہ”، اور “ارمان” شامل ہیں۔
اقبال کی شاعری کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے کلام میں مسلمانوں کی حالت زار، ان کی ثقافت، اور ان کی روایات کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا۔ ان کی شاعری میں ایک عزم، حوصلہ، اور جدوجہد کی کیفیت موجود ہے جو آج بھی لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ مثال کے طور پر، ان کا مشہور شعر ہے:
“خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے،
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے۔”
یہ شعر خودی کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے اور انسان کو اپنی طاقت اور صلاحیتوں کو پہچاننے کی ترغیب دیتا ہے۔
اقبال کا فلسفہ انسانی وجود کی گہرائیوں میں جھانکتا ہے۔ انہوں نے خودی کے تصور کو پیش کیا، جس کا مطلب ہے کہ انسان کو اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرنا چاہیے۔ ان کے نظریات نے نہ صرف شاعری بلکہ اسلامی فکر پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ اقبال نے مسلمانوں کو ایک نئی راہ دکھائی اور انہیں اپنی ثقافت اور روایات کی حفاظت کی تلقین کی۔
اقبال نے اپنی شاعری میں مشرقی ثقافت، فلسفہ، اور روحانیت کا ایک منفرد امتزاج پیش کیا۔ ان کی شاعری میں عشق، محبت، اور خدا سے قربت کا احساس موجود ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو ان کی تاریخ و ثقافت کی یاد دلاتے ہوئے ان کی خودی کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔ ان کا فلسفہ یہ تھا کہ ایک قوم کی ترقی اس کی خودی میں ہے، اور اگر قومیں اپنی شناخت کو بھول جائیں تو وہ ناکام ہو جاتی ہیں۔
علامہ اقبال نے 1930 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں مسلمانوں کے لیے ایک الگ قوم کی حیثیت کا مطالبہ کیا۔ ان کی سوچ نے تحریک پاکستان کی بنیاد رکھی اور وہ ایک ایسے رہنما بن گئے جن کی بصیرت نے مسلمانوں کو ایک نئی منزل کی طرف گامزن کیا۔ انہوں نے اپنے کلام میں مسلمانوں کے حقوق، ان کی شناخت، اور ان کی خودمختاری کا بار بار ذکر کیا۔
اقبال نے مسلمانوں کو ایک متحد قوم کے طور پر سوچنے کی ترغیب دی۔ انہوں نے یہ واضح کیا کہ اگر مسلمان اپنی خودی کو پہچانیں گے اور اپنی روایات کی حفاظت کریں گے تو وہ دنیا میں ایک مضبوط قوم بن سکتے ہیں۔ ان کا مشہور شعر ہے:
“خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے،
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے۔”
یہ شعر مسلمانوں کو اپنی تقدیر کے خالق بننے کی دعوت دیتا ہے اور انہیں اپنی طاقت پر یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے۔
علامہ اقبال 21 اپریل 1938 کو دنیا سے رخصت ہوئے، لیکن ان کی شاعری اور فلسفہ آج بھی زندہ ہیں۔ ان کی وفات کے بعد ان کا کلام ایک نئی نسل کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ ہر سال ان کی برسی پر مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے، جہاں لوگ ان کی شاعری کو پڑھتے ہیں، ان کے نظریات پر بحث کرتے ہیں اور ان کی زندگی سے سبق سیکھتے ہیں۔
اقبال کی شاعری کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ صرف ادبی نہیں بلکہ ایک فلسفیانہ جہت بھی رکھتی ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے انسانیت کو ایک نئی راہ دکھائی اور انہیں اپنی شناخت کی اہمیت سمجھائی۔ ان کی شاعری آج بھی نوجوان نسل کے لیے مشعل راہ ہے، جو انہیں اپنی ثقافت اور روایات کی حفاظت کی تلقین کرتی ہے۔
علامہ اقبال کی برسی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ وہ ایک عظیم فکر کے حامل شاعر تھے جنہوں نے نہ صرف اردو ادب کو بلندیوں تک پہنچایا بلکہ مسلمانوں کو ایک نئی راہ دکھائی۔ ان کی شاعری اور فلسفہ آج بھی ہمیں حوصلہ دیتے ہیں اور ہمیں اپنی شناخت کی اہمیت سمجھاتے ہیں۔ آج کے دن ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ ہم اقبال کے نظریات کو اپنی زندگی میں اپنائیں گے اور اپنی قوم کی ترقی کے لیے کام کریں گے۔
اقبال کی شاعری، ان کے فلسفے، اور ان کے نظریات ہمارے لیے ایک خزانہ ہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اقبال کا پیغام صرف ایک شاعر کا نہیں بلکہ ایک رہنما کا ہے، جو ہمیں اپنی قوم کی ترقی اور فلاح کے لیے جدوجہد کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ آج کا دن ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ ہمیں اقبال کی وراثت کو سنبھالنا ہے اور اپنی قوم کی ترقی کے لیے کام کرنا ہے۔
Leave a Reply