مبشر سعید کی خوبصورت کتاب چند روز پیشتر وصول ھوی مبشر نوجوان شعرا کی صف میں آگے آگے نظر آنے والوں میں سے ایک ایسا شاعر ھے
جسے اپنے خیالات کو مجسم کرنے کا ہنر آتا ھے
غزل کہنا بہ ظاہر آسان لگتا ھے لیکن
اک آگ کا دریا ھے اور ڈوب کے جانا والی بات ھے.
اور مبشر نے اس دریا میں پاؤں رکھے ہیں تو پار بھی اترے گا.
اس کی
خواب گاہ سے کچھ اشعار آپ احباب کے لیے چرا لایا ہوں امید ھے آپ کو بھی پسند آئیں گے .
دل گل تازہ کی خوشبو سے بھرا جاتا ھے
یوں سحر خیز ہوا دی ھے شفق زادی نے
جذبوں کے تن پہ آےہووے زخم چھیل کے
قصے سنا مجھے کسی شام طویل کے
باندھ کر ایک دئیے کی لو میں
ہجر کی رات لیے پھرتے ہیں
مرنے والوں کو کہاں دفن کیا
ہم انہیں ساتھ لیے پھرتے ہیں
عجیب طور درختوں نے شب گزاری ھے
کہ شاخ شاخ قیامت کی سوگواری ھے
.عالم وجد سے اظہار میں آتا ہوا میں
یعنی،خود خواب ہوا ،خواب سناتا ہوا میں
زندگی ہجر ھے اور ہجر بھی ایسا کہ نہ پوچھ سانس تک ہار چکا وصل کماتا ہوا میں
بات دریا بھی کبھی رک کے کیا کرتا تھا
اب تو ہر موج گزرتی ھے اشارہ کر کے
وصل کی روشنی آنکھوں میں بسانے کے لیے
تم بھی سو جاؤ مرے خواب میں آنے کے لیے
یہ مرا دل ھے عزا خانہ وحشت ،جس میں
لوگ آتے ہیں فقط رنج منانے کے لیے
اپنی توقیر بڑھانی ھے ،بڑھا لے لیکن
کوئی تہمت تو لگا مجھ پہ لگانے والی
دئیے سے دوستی رکھی بہر طور
ہوا کا ساتھ بھی چھوڑا نہیں تھا
اداسی کے فرشتے نے مبشر
اداسی میں مجھے دیکھا نہیں تھا
میں اگر پھول کی پتی پہ ترا نام لکھوں
تتلیاں اڑ کے تیرے نام پہ آنے لگ جایں
کتنا اچھا ہو کہ لہروں کو جلانے کے لیے
چاند ،پانی پہ ترا عکس بنانے لگ جاۓ
تحریر اظہر عباس
Leave a Reply