rki.news
عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج یومِ مزدور ہے، جی بالکل یکم مئی وہی دن ہے جس کو یومِ مزدور کے نام سے بھی یاد کیا اور منایا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا دن ہے جس دن کا ہمارے ملک کا حقیقی مزدور ایک عام دن کی طرح سخت محنت سے آغاز کرتا ہے، کیونکہ کسی ایک دن کا بھی ناغہ اُس کے گھر میں بھوک کو ڈیرہ جمانے کا موقع دے سکتا ہے۔ جب کہ آج کے دن اُسی محنت کش مزدور کے نام پر جو کہ تیز دھوپ میں تپتی سڑکوں، بلندو بالا عمارتوں کی چھتوں اور دہکتی فیکٹریوں میں اپنا خون پسینہ ایک کر رھا ھوتا ھے، بڑے بڑے ٹھنڈے ٹھار ہوٹلوں میں حکومتی اخراجات پر ان محنت کشوں کے نام نہاد بنے ہوئے آقا زبانی جمع خرچ والی تقاریر میں بڑے بڑے دعوے اور بھاشن دینے کے بعد پُر تعیش دعوت طعام اُڑا کر خالی خولی طفل تسلیاں دے کر اگلے سال تک محنت کش مزدور کی تکالیف کو حرفِ غلط کی طرح بھلا دیا جائے گا، اور اگلے سال پھر یومِ مزدور کا ڈرامہ دوبارہ اسی اسکرپٹ پر اسی طرح سے اسٹیج کیا جائے گا۔
یہ دن پوری دنیا میں شکاگو کے مزدوروں کی یاد میں منایا جاتا ہے، جو ساری دنیا کو وہ واقعہ یاد دلاتا ہے کہ کس طرح شکاگو کے مزدوروں نے اپنے خون سے ایک ایسی تاریخ رقم کی جس نے مزدور کی اہمیت اجاگر کرنے میں اہم پیشرفت کی ہے۔ جی ہاں یومِ مزدور ایک ایسا دن ہے جب شکاگو کی گلیاں مزدوروں کے اوزاروں اور آوازوں سے گونجنے لگی تھیں، یہ 1 مئی 1886 کے دن کی صبح تھی جب شکاگو کی گلیوں نے اس ناقابلِ یقین مناظر کا مشاہدہ کیا کہ کیسے پسینہ بہانے والے مزدوروں نے اپنے حقوق کے لئے خون بہانے تک سے گریز نہیں کیا ۔ ان محنت کشوں کا صرف ایک سادہ سا مطالبہ تھا کہ ہم مشین نہیں انسان ہیں، ہمیں صرف زندہ رہنے کا نہیں جینے کا حق دو۔ یہ مزدور شکاگو میں نافذ اُس قانون کے خلاف آواز بلند کر رہے تھے جہاں مزدور کے لئے کوئی اوقاتِ کار نہیں رکھے گئے تھے۔ ان محنت کشوں کا کام 24 گھنٹے صرف اپنے مالکوں کے حکم کی بجا آوری تھا۔ یہ پہلا مطالبہ تھا جس میں مزدوروں نے اپنے لئے کام کے اوقات 8 گھنٹے مقرر کرنے کی اپیل کی تھی، لیکن سرمایہ دارانہ قوتوں کو یہ بات کب گوارا تھی کہ بِنا سرمایہ خرچ کئے یہ محنت کش جن کو تقریباً غلام جیسا درجہ حاصل تھا، اُن کو آزادی کا سانس لینا نصیب ہو ۔ محنت کش مزدوروں کا احتجاج جاری تھا کہ 3 مئی کو مزدوروں کے پرامن مظاہرے پر پولیس نے گولیاں چلا دیں، اور 4 مئی کی صبح جیسے ہی ہئے مارکیٹ اسکوائر کی فضاء ایک بم دھماکے کی آواز سے تھرتھرائی، مزدوروں کی یہ ریلی پولیس کی آتش و آہن کی لپیٹ میں آ گئی۔ اس روز انسانیت کو تو ضرور کچلا گیا، لیکن فکرِ مزدور کو مارا نہ جا سکا۔ شکاگو کی سڑکیں مزدوروں کے خون سے لال ہو چکی تھیں ۔ ایک اندازے کے مطابق 10 سے 15 مزدور ہلاک کئے گئے، لیکن اس ظلم پر ہی بس نہیں کی گئی اور مزدوروں کے 8 سرکردہ رہنماؤں پر مزدوروں کو اکسانے کا الزام لگا کر گرفتار کر لیا گیا۔ ان میں سے 4 مزدوروں کو پھانسی دے دی گئی 1 نے جیل میں خودکشی کر لی اور باقی 3 عمر قید کی اذیت بھگتنے پر مجبور کر دئیے گئے ، لیکن طاقت کے نشے میں چور جابر حکمران یہ بھول گئے تھے کہ یہ تحریک اب ایک چھوٹی سی چنگاری نہیں رہی ہے بلکہ ایک شعلہ بن چکی ہے۔ شکاگو سے نکلنے والی یہ آواز جلد ہی ساری دنیا میں ایک گونج بن کر پھیل گئی ۔ یہ دن اب ساری دنیا میں اس سانحہ کی یاد میں منا کر ہر حکومت یہ عزم کرتی ہے کہ مزدوروں کے حالات بہتر سے بہتر کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ پاکستان میں یومِ مزدور کا آغاز 1972 میں اُس وقت کے وزیراعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے پورے ملک میں عام تعطیل کا اعلان کر کے اور پورے ملک میں خصوصی تقاریب خاص طور پر مزدوروں کے نام سے منا کر کیا گیا۔ اس دن سے لے کر آج تک پاکستان بھر میں محنت کشوں کے لیے ہر یومِ مزدور پر پورے ملک میں ریلیاں، تقاریر، اور جلسے منعقد ہوتے ہیں، جن میں اُن کے حقوق کا پرچم بلند کرنے کے دعوے تو بڑے بھرپور انداز میں کئے جاتے ہیں لیکن اتنے سال گزرنے کا باوجود مزدوروں کے حالات تاحال ویسے ہی تلخ ہیں جیسے ماضی میں تھے اور ان ہی تکالیف کا احساس کرتے ہوئے علامہ اقبال تک کو کہنا پڑا تھا،
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
یاد رکھئے یومِ مئی صرف ایک دن نہیں ہے بلکہ یہ کروڑوں محنت کشوں کے دل سے نکلی ایک صدا ہے، جو وقت کی وادیوں میں گونج رہی ہے کہ “محنت کرنے والا ہر ہاتھ عزت کا مستحق ہے۔” یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ فیکٹریوں کی چمنیوں سے نکلتا دھواں، کھیتوں کی مٹی، عمارتوں کے ستون سب مزدور کے پسینے سے معطر ہوتے ہیں۔ آج جب ہم خودکار مشینوں اور ڈیجیٹل دنیا کی طرف بڑھ رہے ہیں، ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہر ٹیکنالوجی کے پیچھے ایک انسانی ہاتھ، ایک تھکی آنکھ، اور ایک پُر امید دل اب بھی دھڑک رہا ہوتا ہے۔ اس تمام عرصے میں کم از کم اس بات پر عمل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ مزدور کے اوقات کار جو 8 گھنٹے مقرر ہیں ان پر عملدرآمد ہوتا رہے ، لیکن آج کا مزدور زیادہ تر بے روزگاری کی چکی میں پس رہا ہے۔ یہ مزدور ہر صبح سورج کا منہ دیکھنے سے بھی پہلے، کبھی ناشتہ کر کے اور کبھی بنا ناشتہ ہی سڑکوں کے کنارے، چوک چوراہوں پر آ کھڑے ھوتے ہیں۔ کبھی کچھ روزگار کا حصول ممکن ہو پاتا ہے، جبکہ اکثر شام ڈھلے خالی ہاتھ گھروں کو لوٹ جاتے ہیں، جہاں اہل و عیال کی خالی خالی منتظر نگاہوں کی کاٹ انکو مضطرب کر جاتی ہیں کہ آج پھر فاقہ ھو گا ۔ حکومتوں پر فرض ہے کہ ہر ممکن کوششوں اور صدقِ دل کی کاوشوں سے ان حالات کو بدلنے کی ضرورت ہے، ہر ہنر مند ہاتھ کو روزگار فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
یوم مزدور ایک عہد ہے، ظلم کے خلاف، ناانصافی کے خلاف، اور اس خواب کے حق میں جو ایک ایسا معاشرہ دیکھنا چاہتا ہے جہاں محنت عزت بنے، اور مزدور فخر۔ “جو ہاتھ پتھر توڑتے ہیں،وہی تاریخ کے صفحے بھی لکھتے ہیں۔” آئیے ہم اُن محنت کشوں کی قربانیوں کو یاد کریں، اُن کے خوابوں کو زندہ رکھیں، اور اس دن کو صرف تقریر اور تعطیل کا نہیں، بلکہ عملی تبدیلی کا دن بنائیں، اور ایک دن ایسا یومِ مزدور منائیں جب مزدور کی قربانیاں اس کے بہتر مستقبل کی خوشیوں میں بدل چکی ہوں۔
Leave a Reply