Today ePaper
Rahbar e Kisan International

ہفتہ نہیں گزرا تھا کہ ہماری پوسٹنگ کوہاٹ ہوگئی۔

Articles , Snippets , / Tuesday, May 6th, 2025

rki.news

پوسٹنگ کیا ہوئی رحمت کی برکھا برسنے لگی۔ (ایک سال بعد اچانک ہمارے کمیشن آرڈرز کا موصول ہونا۔ اعزاز کے ساتھ ٹریننگ مکمل کرنا اور پھر پوسٹنگ اسی مشاعرے والے کالج میں ۔ (تفصیل قسط نمبر 46 میں ملاحظہ کیجیے)۔
پہلے دن ہی “فلائنگ آفیسر فیروز ناطق” کمانڈنٹ کے سامنے پیش ہوگئے۔ کمال مسعود صاحب نے ویلکم کہا۔ کرسی پر بیٹھنے کا اعزاز بخشا، چائے پیتے ہوئے شاعری کی تعریف کی۔ ائرکموڈور کمال مسعود کو ہم یاد تھے۔
یہ وہی کمال مسعود تھے جنہوں نے حمایت علی شاعر کے اصرار کے باوجود ہمیں مشاعرے کی نظامت سے یہ کہہ کر منع کردیا تھا کہ
“He is not an officer”

“دوسرا مشاعرہ”
سال بھر بعد کمال مسعود صاحب کی ریٹائرمنٹ یا پوسٹنگ کے احکامات آگئے۔ ان کے اعزاز میں مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ اس بار انتظامی کمیٹی میں ہم بھی شامل تھے۔ ہماری درخواست پر معروف صحافی شاعر برادرِ عزیز راشد نور (حالیہ مقیم کینیڈا) نے شعراء کو لانے کی ذمہ داری قبول کرلی تھی۔ شاعرات کو مدعو کرنے پر پابندی تھی راشد نور صاحب کو یہ بتادیا تھا۔ آمد و رفت کا انتظام کالج کی طرف سے تھا۔ وقتِ مقررہ پر راشد نور سب شعراء کو لے کر کیڈٹس میس پہنچ گئے۔ شاعروں کا استقبال ہمارے ساتھ چند کیڈٹس بھی کر رہے تھے۔ اچانک گاڑی سے ہم نے سارہ شگفتہ کو اترتے دیکھا۔ شاعرات کی تو اجازت نہیں تھی۔ راشد نور نے بتایا کہ ان خاتون کو مشاعرے کی سن گن مل گئی تھی۔ منع بھی کیا لیکن مانی نہیں۔ ڈنر کے وقت ہم نے کمال مسعود صاحب کو بتایا کہ خاتون شاعرہ بغیر بلائے آگئی ہیں۔ کمال مہربانی سے گویا ہوئے انہیں نیچے خواتین کے ساتھ بٹھادیجے لیکن سارا شگفتہ شعراء کے ساتھ اسٹیج پر ہی بیٹھیں۔ گریبان سے سگریٹ کا پیکٹ نکال کر سگریٹ سلگایا اور دھواں اڑانے لگیں۔ شعر بھی انہوں نے اپنے رنگ کے پڑھے جو کچھ یوں تھے:

“میرے بچپن کے کپڑے چھوٹے ہوگئے
میں نے اپنے آنگن کی تمام دھوپ
تمہارے کپڑے سکھانے میں خرچ کرڈالی”

کسی کو پسند آئے یا نہ آئے ہوں لیکن دوسرے دن ہمارے ایک بزرگ ونگ کمانڈر مجھ سے بولے “فیروز سارہ شگفتہ کا فون نمبر ہوگا تمہارے پاس”

ایروناٹیکل کالج کا یہ دوسرا مشاعرہ بھی پہلے ہی جیسا تھا۔ تمام شعراء گزشتہ سال کی طرح اسٹیج پر تشریف فرما تھے۔ نیچے اسی طرح صوفوں پر بالکل سامنے کمانڈنٹ ائر کموڈور کمال مسعود دیگر افسروں اور بیگمات کے ساتھ بیٹھے تھے۔ پیچھے کیڈٹس کرسیوں پر۔
کچھ بھی تو نہیں بدلا تھا۔ بدلا تھا تو صرف ناظمِ مشاعرہ۔ حمایت علی شاعر کی جگہ فلائنگ آفیسر فیروز ناطق خسروؔ اور صدارت حضرت ناطق بدایونی فرما رہے تھے، سینئر شاعر ہونے کے ناتے۔
قدرت کے کھیل نرالے ہوتے ہیں۔ کبھی حساب چکاتے برس گزر جاتے ہیں اور کبھی بقول نظیر اکبر آبادی:
“کیا خوب سودا نقد ہے اِس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے”
(فیروز ناطق خسروؔ)
نوٹ:
[نیچے تصویر میں صدر مشاعرہ ناطق بدایونی ، ناظم مشاعرہ فیروز خسروؔ، نوجوان شاعر عارف امام اور صہبا اختر نمایاں ہیں۔ جب کہ سارہ شگفتہ کلام سنارہی ہیں]۔
ہفتہ نہیں گزرا تھا کہ ہماری پوسٹنگ کوہاٹ ہوگئی۔ پوسٹنگ کیا ہوئی رحمت کی برکھا برسنے لگی۔ (ایک سال بعد اچانک ہمارے کمیشن آرڈرز کا موصول ہونا۔ اعزاز کے ساتھ ٹریننگ مکمل کرنا اور پھر پوسٹنگ اسی مشاعرے والے کالج میں ۔ (تفصیل قسط نمبر 46 میں ملاحظہ کیجیے)۔
پہلے دن ہی “فلائنگ آفیسر فیروز ناطق” کمانڈنٹ کے سامنے پیش ہوگئے۔ کمال مسعود صاحب نے ویلکم کہا۔ کرسی پر بیٹھنے کا اعزاز بخشا، چائے پیتے ہوئے شاعری کی تعریف کی۔ ائرکموڈور کمال مسعود کو ہم یاد تھے۔
یہ وہی کمال مسعود تھے جنہوں نے حمایت علی شاعر کے اصرار کے باوجود ہمیں مشاعرے کی نظامت سے یہ کہہ کر منع کردیا تھا کہ
“He is not an officer”

“دوسرا مشاعرہ”
سال بھر بعد کمال مسعود صاحب کی ریٹائرمنٹ یا پوسٹنگ کے احکامات آگئے۔ ان کے اعزاز میں مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ اس بار انتظامی کمیٹی میں ہم بھی شامل تھے۔ ہماری درخواست پر معروف صحافی شاعر برادرِ عزیز راشد نور (حالیہ مقیم کینیڈا) نے شعراء کو لانے کی ذمہ داری قبول کرلی تھی۔ شاعرات کو مدعو کرنے پر پابندی تھی راشد نور صاحب کو یہ بتادیا تھا۔ آمد و رفت کا انتظام کالج کی طرف سے تھا۔ وقتِ مقررہ پر راشد نور سب شعراء کو لے کر کیڈٹس میس پہنچ گئے۔ شاعروں کا استقبال ہمارے ساتھ چند کیڈٹس بھی کر رہے تھے۔ اچانک گاڑی سے ہم نے سارہ شگفتہ کو اترتے دیکھا۔ شاعرات کی تو اجازت نہیں تھی۔ راشد نور نے بتایا کہ ان خاتون کو مشاعرے کی سن گن مل گئی تھی۔ منع بھی کیا لیکن مانی نہیں۔ ڈنر کے وقت ہم نے کمال مسعود صاحب کو بتایا کہ خاتون شاعرہ بغیر بلائے آگئی ہیں۔ کمال مہربانی سے گویا ہوئے انہیں نیچے خواتین کے ساتھ بٹھادیجے لیکن سارا شگفتہ شعراء کے ساتھ اسٹیج پر ہی بیٹھیں۔ گریبان سے سگریٹ کا پیکٹ نکال کر سگریٹ سلگایا اور دھواں اڑانے لگیں۔ شعر بھی انہوں نے اپنے رنگ کے پڑھے جو کچھ یوں تھے:

“میرے بچپن کے کپڑے چھوٹے ہوگئے
میں نے اپنے آنگن کی تمام دھوپ
تمہارے کپڑے سکھانے میں خرچ کرڈالی”

کسی کو پسند آئے یا نہ آئے ہوں لیکن دوسرے دن ہمارے ایک بزرگ ونگ کمانڈر مجھ سے بولے “فیروز سارہ شگفتہ کا فون نمبر ہوگا تمہارے پاس”

ایروناٹیکل کالج کا یہ دوسرا مشاعرہ بھی پہلے ہی جیسا تھا۔ تمام شعراء گزشتہ سال کی طرح اسٹیج پر تشریف فرما تھے۔ نیچے اسی طرح صوفوں پر بالکل سامنے کمانڈنٹ ائر کموڈور کمال مسعود دیگر افسروں اور بیگمات کے ساتھ بیٹھے تھے۔ پیچھے کیڈٹس کرسیوں پر۔
کچھ بھی تو نہیں بدلا تھا۔ بدلا تھا تو صرف ناظمِ مشاعرہ۔ حمایت علی شاعر کی جگہ فلائنگ آفیسر فیروز ناطق خسروؔ اور صدارت حضرت ناطق بدایونی فرما رہے تھے، سینئر شاعر ہونے کے ناتے۔
قدرت کے کھیل نرالے ہوتے ہیں۔ کبھی حساب چکاتے برس گزر جاتے ہیں اور کبھی بقول نظیر اکبر آبادی:
“کیا خوب سودا نقد ہے اِس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے”
(فیروز ناطق خسروؔ) جاری ہے


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International