rki.news
میں وہ بچہ ہوں
جس نے کبھی
عام بچے کی طرح
شرارت نہ کی
کرکے ضد اپنے ماں باپ سے
عیش مانگے نہیں , کیک کھائے نہیں
میں نہ گلیوں میں کھیلا , نہ خوش ہو سکا
اور نہ محروم دکھ درد سے رہ سکا
پیدا ہوتے ہی میں موت کے سائے میں
زندگی کی جو سانسیں تھیں , گننے لگا
چہرہ مرجھا گیا , رنگ پیلا پڑا
اور ممکن نہیں میری نشوونما
مجھ پہ جوبن کسی طور آ نہ سکا
میں وہی چاند ہوں
جس کو ماں نے چمکتے نہ دیکھا
تو گہنا گیا
زندگی اتنی لمبی نہیں ہے مری
موت ہی آخری بس دوا ہے مری
ماں تو دیتی ہے اب زندگی کی دعا
خون اوروں کا اب مجھ کو لگنے لگا
تاکہ سانسوں کی گاڑی تو چلتی رہے
اور وہ ممتا کی ماری بہلتی رہے
زندگی چاہتا ہوں میں سب کی طرح
یہ تھیلیسیمیا مجھے گر نہ ہوتا تو کیا
اب تو میرے خدا , بس یہی ہے دعا
نسل نو کو تھیلیسیمیا سے بچا
فریدہ خانم , لاہور , پاکستان .
Leave a Reply