rki.news
3 میں ہمارے والدین، بہن بھائی بھی خیرپور میرس سے کراچی منتقل ہوگئے تھے۔
1974 میں ہماری تعیناتی بھی کوہاٹ سے پی اے ایف بیس کورنگی کریک، کراچی ہوگئی تھی۔ رہائش میس میں تھی۔ ہفتہ کی شام ہم والدین سے ملنےگلبرگ (کراچی) جایا کرتے تھے۔
پیر کی صبح واپسی ہوتی ۔ صدر سے مقررہ وقت پر 61A بس چلا کرتی جو سات بجے سے پہلے کورنگی کریک پہنچادیا کرتی۔ ہم میںس میں یونیفارم پہن کر سات بجے پریڈ گراؤنڈ میں ہوتے۔ کبھی صدر پہلے پہنچ جاتے تو قریب کے ہوٹل سے 4 آنے میں پوری چھولے کا ناشتہ کرلیتے۔ سستے کا زمانہ تھا۔ زیادہ تردد نہیں کرنا پڑتا۔ ہفتہ کی شام جب ہم گلبرگ جانے کے لیے صدر پہنچتے تو گلبرگ جانے والی بس میں بھی بہت بڑا رش ہوتا تھا۔ ففٹی ففٹی کے ایک شو میں اس کی خوب منظرکشی ہوچکی تھی۔ کبھی رکشہ کرنا پڑتا ویسے وہ بہت مہنگا پڑتا۔
شام کے وقت اور بھی نخرے کرنے لگتے۔
ایک روز رکشہ میں جانے کا ارادہ کیا لیکن رکشہ والا بھنی کلیجی کھانے کے چکر میں تھا۔ مجھے بھی ضد ہوگئی، اسی رکشہ میں بیٹھ گیا۔ رکشہ والا پٹھان تھا، میری طرح ضدی بغیر کلیجی کھائے ٹس سے مس نہیں ہونے والا۔ مجھے رکشہ میں بیٹھا دیکھا تو غصے سے گھورتا ایمپریس مارکیٹ کی طرف چل دیا۔ تھوڑی دیر میں ایلمونیم کی دو چھوٹی طشتریوں میں کلیجی لے کر آ گیا۔ ایک میری طرف بڑھا کر بولا لو جی کھاؤ۔ میرے انکار پر بولا تو پھر رکشہ سے اتر جاؤ۔ کچھ بھنی کلیجی کی خوشبو اور کچھ دوسرا رکشہ نہ ملنے کا خوف ہم نے کلیجی جلدی جلدی ختم کی۔ جیب سے پیسے نکال کر دینا چاہے وہ کسی طرح راضی نہ تھا۔ زیادہ اصرار پر وہی جملہ “رکشہ سے اترجاؤ”۔ غرض رکشے والے نے اپنی کرنی کی اور ہم گھر پہنچ گئے۔ آج تک اس روز کی کلیجی کا مزہ تازہ ہے۔
رکشہ والے کی اعلیٰ ظرفی کے بعد کم ظرفی کا ایک واقعہ وہیں ایمپریس مارکیٹ کے اطراف کا ہے۔ ایک روز گلبرگ جانے کے لیے بسیں بھی مسافروں سے بھری گزرتی رہیں۔ رکشہ بھی کوئی خالی نہ ملا تو میں نے ہمدرد دواخانے روڈ سے “سیونتھ ڈے ہسپتال” کا روڈ پکڑا کہ آگے جاکر بندر روڈ سے کسی ڈاریکٹ بس میں بیٹھ جاؤں گا۔ روڈ کے ایک طرف پھلوں کے ٹھیلے لگے ہوتے ہیں۔ زیادہ تر کرسچین جو اطراف میں رہائش پذیر ہیں وہیں سے سودا سلف خریدتے ہیں۔ ابھی میں نے چند قدم ہی بڑھائے تھے کہ کیا دیکھتا ہوں اس ہجوم والی سڑک پر اسکرٹ پہنے ایک خاتون ٹھیلے سے پھل خرید رہی ہیں۔قریب کے ٹھیلے والے ایک نوجوان نے کرسچین خاتون کے پیچھے سڑک پر بیٹھ کر اس کا اسکرٹ اٹھاکر جھانکا پھر اپنے ساتھیوں کے پاس جاکر ہاتھ پر ہاتھ مار کر قہقہے لگانے لگا باقی ساتھی بھی ساتھ دے رہے تھے۔ وہ بے خبر خاتون بیچاری پھل خرید کر جاچکی تھی۔ میرا خون کھول گیا۔ قریب پہنچ کر اس پھل والے نوجوان سے کہا تم کیسے بے شرم ہو۔ پٹھانوں میں تو بہت غیرت ہوتی ہے۔ اس پر وہ کم ظرف ہنس کر بولا صاب آپس میں شرط لگی تھی لیڈی نے کچھا پہنا ہے یا نہیں۔ اس نے پہنا تھا۔ یہ کہہ کر پھر ہنسنے لگا۔ میں اس کم ظرف پٹھان کے پاس سے رکشہ والے اعلیٰ ظرف پٹھان کو یاد کرتا آگے بڑھتے بوئے مڑ مڑ کے دیکھتا جارہا تھا کہ کہیں وہ پٹھان چھری سے مجھے مارنے تو نہیں آرہا۔ اب میری فطری بزدلی عود کر آئی تھی۔
اس واقعے سے صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ اچھے برے۔ کم ظرف، اعلیٰ ظرف ہر طبقے اور رنگ و نسل میں ہوتے ہیں۔ سندھی، مہاجر، پنجابی، پختون بلوچ ہاتھ کی پانچوں انگلیوں کی طرح الگ ہوتے ہوئے بھی ایک ہیں۔ جب یہ انگلیاں مل جاتی ہیں تو وطن دشمنوں کے دانت توڑنے کی قوت بھی رکھتی ہیں۔ بس یہ یاد رکھیے کہ الگ الگ رہ کر ان کی قوت کم ہوجاتی ہے۔
ہم سے بڑے تینوں بہن بھائیوں کی شادیاں ہوچکی تھیں۔ اب گھر والوں کو ہماری شادی کی فکر ستانے لگی۔ ہم ہر ہفتے گھر تو جایا ہی کرتے تھے باتوں ہی باتوں میں ایک دن بڑی آپا کے منہ سے نکل گیا تھا کہ اب خسرو کی شادی کا نمبر ہے۔ سرسری انداز میں ہم سے بس اتنا پوچھا کہ تم شاعر بھی ہو کہیں تمہارا دل ہو تو بتاؤ۔ ہمارا جواب نفی میں تھا۔
اس بار جو پہنچے تو ابا کہنے لگے تمہارا رشتہ طے کردیا۔ طے کردیا کہاں کب میں نے حیرت سے پوچھا۔ آج چلنا ہے بردکھوے کے لیے بڑی بھابی ہنس کر بولیں، میری خالہ زاد بہن ہے، مجھ سے چھوٹی۔ مجھے یاد آیا چند روز پہلے ہی بڑی بھابی نے ذکر کیا تھا۔ خالو کبھی سکہر میں ریلوے کے محکمے میں، ڈویژنل سگنل انجینئر تھے ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی منتقل ہوگئے۔ غرض شام کو ہم گھر والوں کے ساتھ اپنی ہونے والی سسرال پہنچ گئے۔ سسر صاحب نہایت شفقت سے ملے۔ ہم نے اپنی ملازمت اور تنخواہ کے بارے میں بتانا چاہا تاکہ کسی خوش فہمی میں نہ رہیں لیکن ان کے ایک جملے نے ہماری ساری ترکی تمام کردی، ” صاحبزادے ہم نے آپ کو نہیں آپ کا خاندان دیکھ کر رشتہ قبول کیا ہے۔
25 مارچ 1975 کو ہماری شادی ہوگئی۔ صرف دلہن کا فوٹو ہمیں دکھایا گیا، ہم نے بھی زیادہ اصرار نہیں کیا۔ شادی سے پہلے فون پر بھی ہماری بات کبھی نہیں ہوئی۔ اپنی پسند ناپسند کے بارے میں ہم نے اماں سے صرف یہ کہا تھا کہ جہاں بھی آپ ہمارا رشتہ کریں ہمارے مزاج کے مطابق ہو۔
رخصتی والے دن خاندان کی ایک رسم نے چند لمحوں کے لیے ہمیں تردد میں ڈال دیا۔ ہمارے رشتہ کی ایک بھابی بولیں خسرو اپنی دلہن کو گود میں اٹھا کر اوپر لے چلو۔
ہمارے والدین جس گھر میں رہائش پذیر تھے اس کے تین پورشن تھے۔ نیچے والے دونوں حصوں میں مالک مکان اور اوپر والے میں ہمارے گھر والے جس کی سو(100) سیڑھیاں تھیں۔
اس خوشگوار رسم کی بجاآوری کے لیے ہم نے آہوئے رم خوردہ کو گود میں بھرا اور کسی غزالِ خوش رفتار کی طرح سو سیڑھیوں کے پہاڑ کو ایک ہی سانس میں سر کرلیا:
25 مارچ 2025 کو ہم اللہ کے فضل سے اپنی شادی کی پچاسویں سالگرہ دو بیٹوں، بیٹی، داماد بہوؤں، پوتے پوتیوں، نواسیوں کے ساتھ منارہے ہیں۔ (ان شاءاللہ):
“یہ آل یہ اولاد یہ گل ہائے رنگ رنگ
رشکِ ارم یہ گھر یہ حدیقہ اُسی کا ہے
جس نے گزارے ساتھ میں خسروؔ برس پچاس
حاصل سوادِ حقِ رفیقہ اُسی کا ہے”
گھر کا سکون ایک دوسرے کے باہمی ربط و ضبط، محت و احترام اور اعتماد و بھروسے کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔
ہمارے رب کا بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں ایسا شریکِ حیات عطا کیا جس نے ہمیں یہ سب کچھ دیا:
جو آخرت کے سفر میں خسروؔ کی کوئی نیکی لکھی ہو یارب
تو نام کردے بس اک زمینی یہ حور میرے، حضور میرے”
(فیروز ناطق خسروؔ) جاری ہے
Leave a Reply