rki.news
تحریر: انور علی رانا
قدرت کی صناعی کا سب سے حسین مظہر موسموں کی بدلتی رُتیں ہیں۔ یہ صرف ماحولیاتی تبدیلی نہیں بلکہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاس بھی ہیں۔ ہر موسم اپنے اندر ایک فلسفہ، ایک پیغام اور ایک سبق لیے ہوتا ہے۔ اگر ہم چاہیں تو ان قدرتی مظاہر سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں جو ہمیں نہ صرف بہتر انسان بناتے ہیں بلکہ زندگی کے نشیب و فراز کو سمجھنے میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
بہار — امید اور تجدید کا موسم
بہار اپنے ساتھ رنگ، خوشبو اور تازگی لاتی ہے۔ درختوں پر نئی کونپلیں، پھولوں کی مہک اور فضا میں موجود خوشی کا احساس انسان کو زندگی سے محبت کا سبق دیتا ہے۔ بہار ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ ہر سخت موسم کے بعد آسانی آتی ہے۔ یہ امید کی علامت ہے کہ اندھیرے کتنا ہی گہرا کیوں نہ ہو، روشنی آخرکار اپنا راستہ بنا لیتی ہے۔
گرمی — محنت اور برداشت کی علامت
گرمی کی شدت اگرچہ اکثر ناپسندیدہ محسوس ہوتی ہے، مگر یہی موسم ہمیں ثابت قدمی، برداشت اور سخت حالات میں کام کرنے کی صلاحیت سکھاتا ہے۔ دھوپ کی تپش میں فصلیں تیار ہوتی ہیں، اور یہی پیغام زندگی میں بھی کارفرما ہے کہ کامیابی صرف ان لوگوں کا مقدر بنتی ہے جو وقت کی دھوپ میں جلنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
خزاں — قبولیت اور جدائی کا سبق
درختوں سے جھڑتے پتے اور مدھم ہوتے رنگ بظاہر افسردگی پیدا کرتے ہیں، مگر خزاں کا اصل سبق یہ ہے کہ زندگی میں کچھ چیزوں کو وقت پر چھوڑ دینا ہی بہتر ہوتا ہے۔ یہ موسم ہمیں سکھاتا ہے کہ ہر اختتام دراصل ایک نئی شروعات کی تمہید ہے، اگر ہم دل سے اسے قبول کریں۔
سردی — خاموشی میں پوشیدہ فکر
سردی کا موسم سکوت، اندرونی غور و فکر اور خود شناسی کا موسم ہے۔ برف سے ڈھکے مناظر ہمیں بتاتے ہیں کہ کبھی کبھار زندگی میں سست روی بھی ضروری ہوتی ہے تاکہ ہم اپنی ترجیحات، خوابوں اور راستوں پر دوبارہ غور کر سکیں۔ سردی ہمیں تھمنے، سوچنے اور سنبھلنے کا موقع دیتی ہے۔
موسم صرف وقت کی گردش نہیں بلکہ زندگی کے اسباق کی کتاب ہیں۔ جو شخص قدرت کے ان رنگوں کو محسوس کرتا ہے، وہ زندگی کو گہرائی سے سمجھنے لگتا ہے۔ ہم موسموں سے سیکھ سکتے ہیں کہ کب رکنا ہے، کب بڑھنا ہے، کب چھوڑنا ہے اور کب نئی شروعات کرنی ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم آنکھ کھولیں اور فطرت کے ان اشاروں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
Leave a Reply