Today ePaper
Rahbar e Kisan International

مذہبی منافرتوں کے معاشرہ پر اثرات

Articles , Snippets , / Sunday, May 11th, 2025

rki.news

از: ڈاکٹر منور احمد کنڈے۔ ٹیلفورڈ۔ انگلینڈ۔
مذہب انسانی تمدن کی بنیادی اکائیوں میں سے ایک ہے، جو فرد کے باطن کو زندگی بخشتا ہے اور معاشرتی رویوں کو رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ دنیا کے تمام بڑے مذاہب انسان دوستی، رواداری، محبت اور عدل کا پیغام دیتے ہیں۔ تاہم تاریخ اور موجودہ حالات ہمیں یہ دکھاتے ہیں کہ جب مذہب کو ذاتی مفاد، سیاسی غلبے یا گروہی تعصب کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، تو وہی مذہب جو دلوں کو جوڑنے کا ذریعہ بن سکتا تھا، معاشرتی تقسیم، تشدد اور نفرت کا باعث بن جاتا ہے۔
مذہبی منافرت کسی ایک خطے یا مذہب تک محدود نہیں۔ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے، جو مشرق سے مغرب تک مختلف معاشروں کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ چاہے وہ نسلی بنیاد پر مذہب کا استحصال ہو، یا فرقہ وارانہ منافرت، اس کے اثرات ہمیشہ تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ ان منافرتوں سے نہ صرف اقلیتیں متاثر ہوتی ہیں بلکہ پورا معاشرہ ذہنی، اخلاقی اور اقتصادی لحاظ سے کمزور پڑتا ہے۔
عصرِ حاضر میں جب دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے، مذہبی ہم آہنگی کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ اختلافِ عقیدہ ایک فطری امر ہے، لیکن جب اختلاف کو دشمنی کا لبادہ پہنا دیا جائے تو مکالمہ ختم ہو جاتا ہے، اور تشدد شروع ہوتا ہے۔ مذہبی منافرت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ اختلافِ رائے کو برداشت نہیں کرتی، بلکہ اسے ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی دستاویز (Universal Declaration of Human Rights, 1948) کی دفعہ 18 میں واضح طور پر لکھا ہے کہ:
“ہر شخص کو آزادیِ ضمیر، مذہب اور عقیدہ کا حق حاصل ہے…”
یہ اصول عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے، مگر بدقسمتی سے دنیا کے کئی معاشروں میں اسے مکمل طور پر نافذ نہیں کیا جا سکا۔
مذہبی منافرت کے سب سے خطرناک مظاہر میں تشدد، امتیازی سلوک، جھوٹی تہمتیں، جبری تبدیلیِ مذہب، اور عبادت گاہوں پر حملے شامل ہیں۔ ایسی فضا میں قانون کی بالا دستی کمزور ہو جاتی ہے اور جذباتی نعروں، غیر مصدقہ افواہوں اور شدت پسند بیانیے کو تقویت ملتی ہے۔ اس کے نتیجے میں معاشرہ خوف اور بےیقینی کا شکار ہو جاتا ہے۔
دنیا بھر میں ہونے والے مختلف مطالعات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ مذہبی تعصبات نوجوان نسل کو انتہا پسندی کی طرف مائل کرتے ہیں۔ ایک بین الاقوامی تحقیق کے مطابق، ایسے تعلیمی نظام جہاں صرف ایک خاص مذہبی یا فرقہ وارانہ بیانیہ پڑھایا جاتا ہے، وہاں طلبہ میں تنقیدی سوچ کا فقدان اور دوسروں کے عقائد کے بارے میں عدم برداشت دیکھی جاتی ہے (Pew Research Center, 2021)۔ یہی رویہ بڑے ہو کر سماجی انتشار کا سبب بنتا ہے۔
اس کے برعکس وہ معاشرے جو مذہبی رواداری اور کثرت میں وحدت کو فروغ دیتے ہیں، وہاں نہ صرف سماجی امن قائم رہتا ہے بلکہ اقتصادی اور تعلیمی ترقی بھی تیز رفتار ہوتی ہے۔ اسکینڈینیوین ممالک، کینیڈا، اور بعض ایشیائی اقوام اس کی مثالیں پیش کرتے ہیں، جہاں ریاستیں مذہبی غیر جانبداری اور شہری مساوات کو اپنی پالیسی کا حصہ بناتی ہیں۔
قانونی اور سیاسی زاویے سے دیکھیں تو مذہبی منافرت ریاست کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔ جب اقلیتیں یا مخصوص مذہبی گروہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں، تو وہ یا تو علیحدگی کا راستہ اختیار کرتے ہیں یا غیر رسمی مزاحمت کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ریاستی اداروں پر اعتماد متزلزل ہوتا ہے اور معاشرتی بانڈ کمزور پڑتے ہیں۔
انسانی تاریخ میں ایسے دانشمند رہنما بھی گزرے ہیں جنہوں نے مذہبی رواداری کو اپنی سیاست کا مرکز بنایا۔ ان میں ایک نمایاں نام بانیء پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کا ہے، جنہوں نے 11 اگست 1947 کو اپنی دستور ساز اسمبلی سے خطاب میں فرمایا:
“آپ آزاد ہیں، آپ اس ریاست میں اپنے مندروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں، اپنی مسجدوں یا کسی اور عبادت گاہ میں جانے کے لیے بھی آزاد ہیں۔ آپ کا تعلق کسی مذہب، ذات یا عقیدے سے ہو، ریاست کا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہوگا۔”
یہ ایک عالمی انسانی اصول کی عکاسی تھی، جو آج کے دور میں بھی یکساں طور پر قابلِ عمل ہے۔
مذہبی منافرت کا ایک اہم پہلو عورتوں اور بچوں پر اس کے اثرات ہیں۔ مذہبی تعصبات کی بنا پر جبری شادیاں، تبدیلیِ مذہب، یا غیرمنصفانہ سماجی رویے پیدا ہوتے ہیں، تو یہ صنفی انصاف کے عالمی معیارات کی خلاف ورزی ہے۔ خواتین کی خودمختاری اور بچوں کی تعلیم پر اس کا براہ راست اثر پڑتا ہے۔
اس مسئلے کا حل کسی ایک ادارے یا شعبے کے بس کی بات نہیں۔ اسے سماج کے تمام طبقات کو مل کر حل کرنا ہوگا۔ تعلیمی ادارے وہ بنیاد فراہم کریں جہاں تنقیدی سوچ اور اختلاف کی گنجائش ہو۔ مذہبی رہنما اپنے خطابات میں رواداری، حسنِ اخلاق اور بین المذاہب مکالمہ کو فروغ دیں۔ ذرائع ابلاغ نفرت کے بجائے فہم و فراست کو فروغ دیں۔ اور ریاست کو چاہیے کہ وہ تمام شہریوں کو مساوی حقوق فراہم کرے، بغیر کسی مذہبی، نسلی یا لسانی امتیاز کے۔
آج کی دنیا کو مذہبی منافرت نہیں بلکہ مذہبی ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ انسانیت کا تقاضا ہے کہ ہم دوسروں کے عقائد کو سمجھیں، ان کا احترام کریں، اور اختلاف کو دشمنی میں تبدیل نہ ہونے دیں۔ جیسا کہ ایک معروف دانشور نے کہا:
“رواداری وہ روشنی ہے جو دلوں کے اندھیرے دور کرتی ہے۔”
وقت آ گیا ہے کہ ہم مذہب کو نفرت کا نہیں بلکہ محبت، علم اور امن کا ذریعہ بنائیں۔

حوالہ جات:
1. Universal Declaration of Human Rights. Article 18, United Nations, 1948.
2. Jinnah, Muhammad Ali. Speech to the Constituent Assembly, 11 August 1947.
3. Pew Research Center. The Future of World Religions: Population Growth Projections, 2021.
4. Amnesty International. Global Human Rights Review, 2020.
5. Freedom House. Religious Freedom in the World, 2023.
6. Durkheim, Émile. The Division of Labour in Society, 1893


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International