rki.news
عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روز صبح سویرے جب آپ بیدار ہوتے ہیں تو گھر کے آنگن میں آپ کا مطلوبہ روز کا تازہ اخبار آپ کا منتظر ہوتا ہے۔ آپ اس کو اٹھاتے ہیں، پڑھتے ہیں، تازہ حالات سے باخبر بھی ہو جاتے ہیں، لیکن ایک بات شائد آپ سوچنا بھول جاتے ہیں کہ یہ اخبار آپکی دہلیز تک پہنچانے والا ہاکر رات کے کس پہر حق حلال کمانے کی خاطر اپنی نیند چھوڑ کر گھر سے نکلا ہوگا ، تاکہ آپ کا بروقت خبر کی دنیا سے رابطہ قائم رہ سکے ۔ یہی اخبار فروش جنہیں ہم ہاکرز کے نام سے جانتے ہیں ہماری روزمرہ زندگی کا ایک اہم حصہ ہیں۔ یہ وہ محنتی لوگ ہیں جو ہر روز صبح سویرے اخبارات گھروں، دکانوں اور دفاتر تک پہنچاتے ہیں، تاکہ ہم تازہ خبروں سے باخبر رہ سکیں۔ مگر کبھی ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان کی اپنی زندگی خود کتنے مشکلات اور مسائل کا شکار ہے۔ ایک مشہور قول ہے کہ اگر اپنے گرد اجالا برقرار رکھنا چاہتے ہو تو روشنی کرنے والوں کو کبھی اندھیروں کے حوالے نہیں کرنا ۔ ان ہاکرز کا موجودہ دور میں سب سے پہلا، بڑا اور گھمبیر مسئلہ مالی تنگی کا ہے۔ اس سوشل میڈیا کے دور میں جب ہر ہاتھ میں موبائل موجود ہے، پل پل کی خبروں سے ہروقت ہر شہری باخبر ہے، اخبار کی اہمیت اپنی قدر کھوتی جا رہی ہے ۔ ان حالات نے اخبارات کی سرکولیشن کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ لہٰذا ہاکرز جن کی آمدنی کا دارومدار صرف اور صرف اخبارات کی فروخت پر ہے، وہ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ اتنی کم سرکولیشن پر جو آمدنی وہ صبح سویرے خوب محنت کے بعد حق حلال سے کما پاتے ہیں وہ اس مہنگائی کے دور میں ان کے روزمرہ کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی آمدنی کا کوئی دوسرا مستقل ذریعہ نہیں ہے، وہ دیگر مزدوروں کی طرح اس سوچ کی زنجیر سے جکڑے ہو تے ہیں کہ اگر کسی دن اخبار مطلوبہ تعداد میں فروخت نہیں ہو پاتا تو انہیں بہت زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے، فاقہ کشی تک کی نوبت آ جاتی ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ ان کی صحت اور تحفظ کا بھی ہے۔ ہاکرز صبح بہت جلد اُٹھتے ہیں، ہر طرح کے سخت سرد و گرم موسم میں کام کرتے ہیں، بارش، سردی یا گرمی کچھ بھی ہو ان کے کام میں رکاوٹ نہیں آتی، مگر حکومتِ وقت کی طرف سے اِن کے لیے طبی سہولیات یا بیمہ فراہم نہیں کیا جاتا تاکہ وہ اپنا علاج سہولت سے کروا سکیں۔ اس لئے اکثر ہاکرز ان سختیوں کو جھیلتے بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں، اور ان کے لیے کوئی سرکاری مدد تک موجود نہیں ہوتی۔ تیسرا مسئلہ سوشل سیکیورٹی کا فقدان ہے۔ زیادہ تر ہاکرز سرکاری طور پر دیگر مزدوروں کی طرح رجسٹرڈ نہیں ہوتے، جس کی وجہ سے یہ سرکاری اسکیموں یا مالی امداد سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے، بلکہ الٹا انہیں اکثر مقامی انتظامیہ یا بلدیاتی اداروں کی طرف سے ہراسانی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ چوتھی اہم پریشانی تعلیم سے دوری ہے۔ زیادہ تر ہاکرز بہت کم عمر ہوتے ہیں جو تعلیم چھوڑ کر گھر میں موجود معاشی مجبوری کی وجہ سے اس کام پر لگ جاتے ہیں جہاں پھر ان کے پاس آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہیں بچتا۔ یہ وہ حالات ہیں جو عمومی طور پر پاکستان کا ہر اخبار فروش اپنی زندگی کے روز مرہ معمولات میں برداشت کر رہا ہے۔ یہ تمام مسائل دیکھتے ہوئے ہاکرز کے مسائل حل کرانے کی جدوجہد میں دیگر صوبوں کی طرح کوئٹہ بلوچستان میں بھی ہاکرز یونین کا قیام انجمن فلاح و بہبود اخبار فروشان کوئٹہ کے نام سے عمل میں لایا گیا ۔ یہ ایک مکمل جمہوری اصولوں پر قائم دیگر ٹریڈ یونینز کی طرح کی ایک جمہوری باڈی ہے، جس میں ہر دو سال بعد الیکشن کروا کر ہاکرز کی اکثریتی رائے سے کابینہ منتخب کی جاتی ہے۔ اپنےقیام سے لےکر آج تک انجمن نے ہاکرز کے حقوق کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے ہر ایک فورم پر توانا آواز ضرور اٹھائی ہے، لیکن جواب میں حکومتِ وقت کے وعدوں سے فائلیں تو ضرور موٹی ہوئی ہیں لیکن عمل تاحال ندارد ہے۔ ہاکرز کے رہائشی مسئلے پر 1974 میں اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان جناب ذوالفقارعلی بھٹو صاحب سے کی گئی اپیل کی خبر بھی تاحال فریم کر کے لگی ہوئی ہے، جس پر 50 ایکٹر زمین کے وعدوں کے بیانات پر بعد آنے والی ہر حکومت سے ایفائے عہد کی درخواست تاحال درخواست ہی ہے ۔ بلوچستان میں بننے والی ہر ہر حکومت سے ہاکر یونین کی مودبانہ درخواستیں اب تک وعدہ فردا پر ڈال کر فائلوں کا پیٹ بھرنے کے لئے چھوڑ دی گئی ہیں۔ اخبار مارکیٹ کے قیام کے بعد یہ بات شائد بھلا دی گئی ہے کہ اخبار مارکیٹ کے اخراجات کے لئے کئے گئے سرکار کے وعدے ردی کی ٹوکری کے نہیں عمل کے متقاضی ہیں۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اخبار مارکیٹ میں مہیا کی گئی سہولیات بنا اخراجات کے اپنا تسلسل برقرار نہیں رکھ سکتیں، بجلی، گیس، پانی کے بلز ، چوکیدار اور صفائی کے اخراجات ہر ماہ ادائیگیوں کے متقاضی ہوتے ہیں وہ صرف حکومتی وعدوں پر تسلسل برقرار نہیں رکھ سکتے۔ گورنر امیر الملک مینگل صاحب کے کہنے پر اور انجمن کی کوششوں سے ہاکرز کی فلاح و بہبود کے لئے ایک بہبود فنڈ ضرور قائم کیا گیا تھا تاکہ اس کے ذریعے ہاکرز کے مسائل کا تدارک کیا جا سکے، لیکن یہ بات بھی سب کے علم میں ہے کہ وقت کیساتھ ساتھ مہنگائی بڑھنے کے ساتھ ساتھ اخراجات بھی بڑھتے ہیں، اس بات سے ادراک رکھنے کے باوجود پچھلے 8 سال سے اس فنڈ میں اضافہ نہ کر کے ہاکرز کے مسائل حل کرنے کے بجائے اس میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے۔ انجمن نے اس بابت ہر آنے والے وزیر اعلیٰ تک اس پر غور کرنے کی درخواست پہنچائی ہے لیکن وہی ہمیشہ کی طرح وعدہ فردا بیچ میں آ جاتا ہے۔ مارکیٹ کی خستہ حال بلڈنگ پچھلے 10 سال سے بنا رنگ و روغن کسی کھنڈر کے روپ میں ڈھلتی جا رہی ہے، اور یہ بات باعث شرم ہے کہ خبروں سے روشنی پھیلانے میں حصہ دار خود اندھیرے میں ڈوبتے جا رہے ہیں۔ ایک اور ستم ظریفی دیکھیں کہ بازار میں موجود میزان چوک پر اخبار فروشوں کے کھوکھے اس بنیاد پر ہٹائے گئے تھے کہ ان کو دوسری جگہ الاٹ کئے جائیں گے ،مگر ایک عرصہ گزرنے کے باوجود اس پر مجرمانہ خاموشی ان اخبار فروشوں کے معاشی قتل کے مترادف ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور میڈیا کے طاقتور ادارے باہم گفت و شنید کے ذریعے ان ہاکرز کی فلاح و بہبود کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔ حکومتِ وقت سے گزارش ہے کہ انہیں کم از کم اجرت، سوشل سیکیورٹی، صحت کی سہولیات، اور بچوں کی تعلیم کی فراہمی جیسے بنیادی حقوق دیے جائیں۔ یہ لوگ معاشرے کے اہم فرد ہیں ان کی محنت کی قدر کی جانی چاہیے۔ حکومتِ وقت سے گزارش ہے کہ روشنی بکھیرتے ان چراغوں کو بجھنے کے لئے نہ چھوڑا جائے بلکہ ان کی مدد کی جائے تاکہ ان کی چمک میں مزید اضافہ ہو سکے۔ ورنہ خبر پہنچانے والے یہ ہاکرز کہیں خود خبر نہ بن جائیں۔
Leave a Reply