rki.news
تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com
روس اوریوکرین کےدرمیان جنگ بندی مذاکرات
کیا روس اور یوکرین جنگ بندی پر آمادہ ہو رہے ہیں؟میڈیا رپورٹس کے مطابق 15 مئی 2025 کو ترکی کے شہر استنبول میں روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی مذاکرات ہو رہے ہیں۔ترکی ثالثی کر رہا ہےاور اس بات کا امکان ہے کہ مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے۔لمبے عرصے سے جاری جنگ ختم ہونے میں نہیں آرہی،لیکن روس فتح حاصل کرنے میں بھی ابھی تک ناکام ہے۔یوکرین کی شکست روس کو بلندیوں تک پہنچا سکتی ہے لیکن نیٹو کی مدد یوکرین کو شکست سے بچا رہی ہے۔نیٹو ارکان میں سب سے زیادہ یوکرین کوجس ملک سے امداد مل رہی ہے،وہ امریکہ ہے۔یوکریی صدر ولادیمیرزیلنسکی کی طرف سے اس بات کا بارہا اعتراف کیاجاچکاہے کہ امریکہ کی مدد شکست سے بچا رہی ہے اور امریکی مددکے بغیر چند دن تک بھی جنگ جاری نہیں رہ سکتی،حالانکہ یہ جنگ 24 فروری 2022 کو شروع ہوئی تھی اور ابھی تک جاری ہے۔یہ جنگ بہت بڑی تباہی پھیلا رہی ہےاور اس کے اثرات پوری دنیا پر پڑ رہے ہیں۔خونریز جنگ کو روکنے کی کوششیں کی گئیں،لیکن کوششیں کامیابی سے ہمکنار نہ ہوئیں بلکہ ناکام ہو گئیں۔اس جنگ میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے ہیں اور لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔حال ہی میں تین روزہ جنگ بندی معاہدہ ہوااور اب وہ معیاد ختم ہو چکی ہے۔روس اور یوکرین نے جنگ بندی معاہدے کی پاسداری کی لیکن محدود جھڑپوں کے الزامات دونوں ایک دوسرے پر لگا رہے ہیں۔روس دنیا میں ایک بڑی طاقت کے طور پر اپنی پہچان بنوا چکا ہے،لیکن یوکرین کو ابھی تک شکست دینے میں ناکام ہے۔اب روس خود بھی مذاکرات کی میز پرآرہا ہے تاکہ جنگ بندی معاہدہ ہو سکے۔روس بھی کافی نقصان اٹھا چکا ہےلیکن یوکرین کا نقصان کئی گنا زیادہ ہے۔جنگ بندی معاہدہ ہو بھی گیا تو یوکرین کو سنبھلے میں بہت عرصہ لگ جائے گا۔یوکرین میں رہائشی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں اور ان عمارتوں کو دوبارہ تعمیر کرنا خاصہ مشکل،مہنگا اور صبرآزما کام ہے۔روس خود بھی معاشی طور پر کافی بدحال ہو چکا ہے۔روس اور یورپی یونین کے درمیان تجارتی تعلقات بھی شدید متاثر ہوئے ہیں۔روس کوئی بڑی کامیابی حاصل کرنے میں ابھی تک ناکام ہے،اس لیے مذاکرات کرنا چاہ رہا ہے تاکہ مزید نقصان سے بچا جا سکے۔ہو سکتا ہے کہ یہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں،تو جنگ زیادہ عرصےتک جاری رہ سکتی ہے۔اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا روس اپنا خسارہ یوکرین سے پورا کرے گایاخود برداشت کر لے گا؟کچھ علاقے بھی روسی قبضہ میں آگئے ہیں اور یوکرین مقبوضہ علاقوں کو واپس کرنے کا مطالبہ کرے گا۔روس اگر یوکرینی مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا ہےاور بطورہرجانہ بھاری رقم کا مطالبہ کرتا ہےتو یہ مذاکرات ناکامی سے دو چار ہو جائیں گے۔یوکرین کی کوشش ہوگی کہ روسی اثرورسوخ یوکرین پر نہ پڑ سکے۔
روس اور یوکرین کے مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں یا ناکام،کچھ واضح نہیں کہا جا سکتا۔ان مذاکرات کے لیے امریکہ بھی پریشر ڈال رہا ہے۔امریکی اتحاد کی یوکرین کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہےاور مستقبل میں بھی ادائیگی ہوتی رہے گی۔یوکرین نے امریکہ کو امداد کے بدلے معدنی وسائل میں حصہ دار بنالیا ہے۔معدنی وسائل میں حصہ امریکہ نےزبردستی لیا ہےاور یوکرین مجبور ہو گیا تھا کہ امریکہ کو اپنی قیمتی دولت میں حصہ دار بنائے۔معدنیات کےسلسلہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرینی صدر ولادی میر زیلنسکی کے درمیان امریکہ میں بدمزگی پیدا ہو گئی تھی،لیکن بعد میں یوکرین مجبوراحصہ دینے پر راضی ہوا۔یوکرین کے پاس گریفائٹ،لیتھیم اور ٹائٹینیم جیسی قیمتی دھاتوں کے وسیع ذخائر ہیں۔قابل تجدید توانائی،فوجی ٹیکنالوجی اور بنیادی ڈھانچے میں استعمال کی وجہ سےان معدنیات کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔امریکہ یوکرین کی وسیع دولت کو کافی عرصے تک حاصل کرتا رہے گا۔امریکہ اب دباؤ ڈال رہا ہے کہ یوکرین اور روس کے درمیان جنگ بندی معاہدہ ہو جائے۔جنگ بندی معاہدہ امریکہ کے مفاد میں بھی ہے کیونکہ جنگ کی صورت میں وہ معدنیات حاصل نہیں کر سکتا۔جنگ جاری رہتی ہےتو اس بات کا امکان ختم نہیں کیا جا سکتا کہ یوکرین روس کے قبضے میں آجائے۔یوکرین پر اگر روس قبضہ کر لیتا ہے تو تمام معدنیات سمیت پوری دولت روس کے قبضے میں آ جائے گی اور روس امریکہ سمیت کسی کو حصہ نہیں دے گا۔روسی صدر ولادی میر پیوٹن کی کوشش ہوگی کہ کم از کم جنگ میں ضائع ہونے والی رقم وصول ہوسکے۔روس صرف یوکرین سے مقابلہ نہیں کر رہا بلکہ ایک بڑے اتحاد(نیٹو)سے مقابلہ کر رہا ہے۔روس اب بھی لمبے عرصے تک مقابلہ کر سکتا ہے۔
ان مذاکرات کےسلسلہ میں روس بھی تیار نظرآرہا ہے،لیکن حتمی نتجہ بعد میں سامنے آئے گا۔روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے یوکرین کو براہ راست مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔پیوٹن کے مطابق ہم ایک ایسا آسان حل چاہتے ہیں جوخطے میں پائیدار امن قائم کر سکےاوریہ بھی کہاکہ روس مسئلے کا پرامن حل چاہتا ہے۔امریکی صدر نے کہا ہےکہ 15 مئی روس اور یوکرین کے لیے ایک عظیم دن ثابت ہو سکتا ہے۔یہ مذاکرات ترکیہ کی ثالثی میں ہو رہے ہیں۔ترک وزارت خارجہ کے مطابق، ہمیں امید ہے کہ یہ مذاکرات خطے میں کشیدگی کے خاتمے اور انسانی جانوں کے تحفظ کا ذریعہ بنیں گے۔یہ وضاحت کی گئی ہےکہ ان مذاکرات کے لیےکوئی پیشگی شرط عائد نہیں کی جائے گی۔مذاکرات جنگوں کے دوران آسان نہیں ہوتے بلکہ طاقتور فریق پریشر ڈال کر کمزور فریق کو اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کرتا ہے۔روس یہ بھی شرط رکھ سکتا ہے کہ یوکرین آئندہ نیٹو کا رکن نہیں بن سکے گا۔کچھ اور شرائط بھی روس مذاکرات کی میز پر پیش کر سکتا ہے۔امریکہ کی بھی کوشش ہے کہ یہ مذاکرات ہر حال میں کامیاب ہو جائیں تاکہ وہ اپنی دولت حاصل کر سکے۔امن پسندوں کے لیے جنگ بندی بہترین حل ہے۔جنگ بربادی لاتی ہے اور وسیع پیمانےپر انسان قتل ہوتے ہیں۔توقع کی جانی چاہیےکہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں گےاور مزید بربادی رک جائے گی۔
Leave a Reply