Today ePaper
Rahbar e Kisan International

بھارت کی جنگی اشتعال انگیزی کا اخلاقی اور سفارتی جواب

Articles , Snippets , / Friday, May 23rd, 2025

rki.news

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

نائب وزیراعظم پاکستان اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا حالیہ بیان سامنے آیا ہے وہ یہ کہ ’’پاکستان بزدل ہے نہ کسی ڈرتا ہے”۔ نائب وزیراعظم نے بھارت کو دو ٹوک پیغام دیا ہے کہ اگر حملہ کیا تو بتا کر کریں گے‘‘۔ یہ دلیرانہ پیغام ایک طرف جہاں سیاسی جُرات کا مظہر ہے، وہیں اس کے تاریخی، سفارتی اور عسکری پس منظر کو سمجھے بغیر اس بیان کی معنویت مکمل طور پر بیان نہیں کی جا سکتی۔ اس بیان نے نہ صرف خطے میں پاکستان کے امن پسند مگر باوقار مؤقف کو واضح کیا ہے بلکہ بھارت کی جنگی حکمتِ عملی پر بھی تنقیدی سوالات اٹھا دیے ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد سے اب تک بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کشیدہ رہے ہیں، خصوصاً کشمیر کے مسئلے نے دونوں ممالک کو تین بڑی جنگوں کی طرف دھکیلا۔ 1947، 1965 اور 1971 کی جنگوں میں بھارتی میڈیا اور ریاستی اداروں نے پاکستان کو ’’جارح‘‘ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی، مگر حقائق اس کے برعکس ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ عالمی فورمز پر مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی بات کی ہے اور خطے میں امن و استحکام کا داعی رہا ہے۔

1998 میں ایٹمی تجربات کے بعد جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن نسبتاً بحال ہوا۔ پاکستان نے دفاعی حکمتِ عملی میں ’’نرم مگر چوکنا ردعمل‘‘ (Credible Minimum Deterrence) کا نظریہ اپنایا، جس کا مقصد امن کی ضمانت دینا تھا، نہ کہ جنگی جارحیت تھی۔ اسحاق ڈار کا حالیہ بیان اسی پالیسی کی ایک نئی سفارتی تشریح ہے۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ ’’اگر حملہ کریں گے تو بتا کر کریں گے، ہم ان کی طرح بزدل نہیں‘‘۔ یہ بیان دو واضح پیغام دیتا ہے۔ پہلا یہ کہ شفاف اور بہادر سفارت کاری بہت ضروری ہے۔ پاکستان کسی خفیہ ایجنڈے کے تحت کارروائی نہیں کرتا۔ نہ پلوامہ جیسا ڈرامہ رچاتا ہے اور نہ ہی اپنے عوام کو فریب دیتا ہے۔
ہم دفاعی ہی نہیں بلکہ اخلاقی برتری کا بھی مظاہرہ کریں گے۔اس بیان سے یہ تاثر بھی ابھرتا ہے کہ پاکستان کو اپنی عسکری قوت پر مکمل یقین ہے، مگر وہ اسے تباہی کے بجائے امن کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔
یہ لہجہ اس وقت اپنایا گیا ہے جب بھارت کے میڈیا اور سیاستدان انتخابی مہمات میں پاکستان مخالف بیانات دے کر اپنی عوام کو اشتعال دلاتے رہے ہیں۔ اسحاق ڈار کے الفاظ بھارت کے ان بیانیوں کا سفارتی اور اخلاقی جواب ہیں۔

اس بیان کا ایک اہم پہلو اسحاق ڈار کا حالیہ دورہ چین بھی ہے۔ چین ہمیشہ پاکستان کا تزویراتی اتحادی رہا ہے۔ 1951 سے شروع ہونے والے دوطرفہ تعلقات اب CPEC جیسے بڑے منصوبوں میں ڈھل چکے ہیں۔ اسحاق ڈار کا کہنا کہ چین نے ایک بار پھر کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی حمایت کی ہے، نہ صرف اہم سفارتی کامیابی ہے بلکہ بھارت کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ پاکستان اب تنہا نہیں ہے۔

چین، پاکستان اور افغانستان کے سہ فریقی اجلاس میں شرکت، افغان مہاجرین اور تجارتی امور پر بات چیت، پاکستان کی سفارتی وسعت اور علاقائی حل کے حق میں پالیسی کی عکاس ہے۔ بھارت نے ہمیشہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا، مگر پاکستان اب براہِ راست کابل حکومت سے معاہدے کر کے اس خلا کو پُر کر رہا ہے۔

اسحاق ڈار کا بیان محض سیاسی بیان ہی نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک منظم سفارتی اور عسکری حکمت عملی بھی موجود ہے۔ یہ بیان بھارت کی جنگی اشتعال انگیزی کا اخلاقی اور سفارتی جواب بھی ہے اور پاکستانی عوام کے لیے ایک حوصلہ افزا پیغام بھی ہے۔ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے، مگر بوقتِ ضرورت اپنی خودمختاری، سالمیت اور وقار کا دفاع کرنا بھی جانتا ہے۔

اسحاق ڈار کا بیان دراصل پاکستان کی خارجہ پالیسی کے ایک نئے بیانیے کی بنیاد رکھتا ہے، ایسا بیانیہ جو دفاعی ہی نہیں، بلکہ سفارتی اور اصولی حکمت عملی پر بھی مبنی ہے۔ یہ ایک ذمہ دار ریاست کے وزیر خارجہ کی آواز ہے جو بتا رہا ہے کہ پاکستان امن چاہتا ہے، مگر کسی دشمن سے خوفزدہ نہیں۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International