rki.news
شاعری کی دنیا، قوس قزح کے رنگوں میں لپٹی ہوی، ہنستی مسکراتی اورگنگناتی ہوی دنیا ہے، کبھی کبھار اس میں سوز حیات کے نوحے بھی سنای دیتے ہیں, دبی دبی سسکیاں، محرومیاں، کوتاہیاں اور کوتاہیوں کی نہ ختم ہونے والی داستانیں، سود و زیاں کے قصے بھی ہیر رانجھے کی محبت بھری داستان کے ساتھ ساتھ ہی محو رقص رہتے ہیں ، یہی زندگی ہے، یہی زندگی کا حسن ہے، زندگی ہر رنگ کی د ھمال ڈالتی ہوی، ہر پیراہن میں ملبوس بڑی دلآویز، بڑی دلربا دکھتی ہے، شاعروں کے قصے سنتے آے تھے، ان کی دیوانگی کے قصے بھی خوب سن رکھے تھے، ان کی بد حواسییوں سے بھی واقف تھے، مشاعروں، شاعروں اور متشاعروں کی کہانیوں سے بھی آگاہ تھے، گروہ بندیاں، اقربا پروریاں، جھوٹی نمود و نمایش, جھوٹ سچ کی آمیزش کے جھولوں میں جھولتی ہوی یہ عوام جنہیں لوگ باگ دانشور اور ان کے اپنے گھر والے انھیں تقریباً عقل سے پیدل یی سمجھتے ہیں، ساری عمر ایک ایسی دنیا کے مکین بنے رہتے ہیں جو دراصل دنیا میں تمام آزمایشوں سے بڑھ کر ایک بہت ہی بڑی آزمائش ہے، اور ان شاعر حضرات کے لیے تو سراپا آزمائش ہے جن کا کوی مستقل ذریعہ روزگار نہیں، وہ کبھی کبھار ملنے والی اس اجرت سے اپنے بدن کو ڈھانپیں یا پیٹ کی بھوک کے سرکش گھوڑے کو لگام ڈالیں. خیر ہمیں اس موضوع میں رتی بھر بھی دلچسپی نہ تھی ہم کولہو کے بیل کی طرح سدھاے ہوے اپنی روزی روٹی کمانے کے تمام گنوں سے لیس تھے ہم نے تو شاعری کو اپنی تفریح طبع کے لیے رکھ چھوڑا تھا اور سچی بات ہے اس شاعری کی دنیا میں ہمیں بڑے بڑے نامی گرامی نمونوں کے اصل چہروں سے سچی میں آشنائی ہوی اور اس محاورے کی صداقت پہ دل و جان سے ایمان لانا پڑا کہ پہاڑ واقعی دور ہی سے اچھے لگتے ہیں، خیر شاعر، شاعرات، متشاعر،متشاعرات سے بات ادبی گروپ بندیوں تک پہنچی، من پسند اور من چاہے لوگوں کو منتخب مشاعروں میں بلوانا، ادب کی اتنی بڑی بے ادبی ہے کہ اسے الفاظ میں بیان کرنا تقریباً ناممکن ہی ہے، اور یہ ادبی گستاخی عرصہ دراز سے جاری ہے، اور آنے والے وقتوں میں یہ ادبی، بے ادبی مزید بڑھنے والی ہے، کل ایک بہت بڑے شاعر سے یہ پوچھنے کا اتفاق ہوا کہ کیا مشاعرے کی صدارت کے لیے صدر کا شاعر ہونا ضروری ہے تو بڑے شاعر اور دانشور نے اس کا ایسا خوب صورت اورمفصّل جواب دیا کہ سوال کا بھرم بھی رہ گیا اور سوال کا جواب بھی ہو گیا، انہوں نے ایک پرانا قصہ سنایا جب گورنر موسیٰ خان کو کسی مشاعرے کی صدارت کا کہا گیا، صدارت تو قبول کر لی گءی مگر جب شعراء کرام اپنا کلام سنا تے اور سامعین مکرر، مکرر، مکرر کی صدایں لگاتے تو موسیٰ خان نے استسفار کیا کہ لوگ مکرر مکرر کیوں کہہ رہے ہیں انھیں بتایا گیا کہ شاعروں کے اچھے شعر دوبارہ سننے کی فرمائش کومکرر مکرر کہتے ہیں، گورنر موسیٰ نے یہ کہہ کے اپنی صدارت کو مشکل میں ڈال لیا کہ شاعر کوی تمہارے باپ کا نوکر ہے کہ شعر بار بار سناے، یہ تو سامعین کو چاہیے کہ ایک ہی بار شعر کو غور سے سنیں. لیکن اب تو ہر صدارت ہی پروٹوکول کی مرہون منت ہوتی ہے. اور یہ سوال ہتھوڑے کی طرح میرے دماغ کا کچومر بنانا شروع کر دیتا ہے کہ کیا ہم کسی ایسے دور میں اپنی زندگیاں جی پایں گے جہاں ہر شے میرٹ کے لبادے میں بالکل شفاف ہو گی.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Naureen drpunnamnaureen@gmail.com
Leave a Reply