تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ تعمیر معاشرہ میں انسانی رویوں کا کردار بہت اہمیت رکھتا ہے۔ حسن اخلاقی اور معاشرتی اقدار کا احترام اور انسانیت کے وقار میں پوشیدہ ہے۔ سماجیات کا مطالعہ کرنے سےمعاشرے میں پاۓ جانے والے بگاڑ اور خرابیوں کی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اصلاح معاشرہ اور پاکیزگی کی ضرورت تو ہر وقت درپیش رہتی ہے۔ معاشرتی اصلاح اور پاکیزگی سے معاشرہ کی بنیادیں مستحکم ہوتی ہیں اورآپؐ کے لاۓ ہوۓ جامع نظام حیات سے مضبوط ہوتی ہیں۔ علم اور عمل لازم و ملزوم ہیں۔ ماہرین تعلیم کے مطابق اصلاح اور دعوت کے عمل سے نہ صرف معاشرتی زندگی کی اساس مضبوط ہوتی ہے بلکہ معاشرتی زندگی کا حسن دوبالا ہوتا ہے اور معاشرہ پاکیزہ بھی ہوتا ہے۔ حقیقی معنوں میں تعلیم و تربیت سے اصلاحات کی صلاحیت بھی پیدا ہوتی ہے۔اور علم کی روشنی سے انسانی رویوں میں خوبصورتی بھی پیدا ہوتی ہے۔مساجد اور دینی مدارس معاشرے کی تعمیرنو اور پاکیزگی میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیںاساتذہ اور خطیب حضرات کا تعمیری کردار تو حسن معاشرت کا حسن دوبالا کرتا ہے۔اس ضمن میں علماۓ کرام کی ذمہ داریاں بھی بہت زیادہ ہیں۔نوجوان نسل کی جسمانی٬ذہنی٬روحانی تربیت سے معاشرتی ماحول میں بہتری پیدا ہو تی ہے بصورت براٸی کے آسیب سے تو معاشرہ بد امنی کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔معاشرے کا معیار انسانی رویوں اور کردار سے معلوم ہوتا ہے۔بہتر جسمانی اور ذہنی تربیت سے فکرو شعور کی کونپلیں پھوٹتی اور اور چاہت کے پھول کھلتے ہیں۔معاشرتی اور سماجی فہم و فراست کے فروغ سے زندگی کے سفر میں آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔دیانتداری اور مثبت سوچ کے زاویوں میں وسعت پیدا ہونے سے زندگی کے رنگوں میں اور بھی نکھار پیدا ہوتا ہے۔ایک دوسرے کے ساتھ اچھا برتاؤ اور اسلوب زندگی کی ضرورت بہت زیادہ ہے۔اس وقت انسانیت سکون کی تلاش میں ہے۔تاہم اسلامی تعلیمات اور عمل سے نہ صرف بے قراری کا طوفان تھم سکتا ہے بلکہ اطمینان کی دولت بھی ہاتھ آ سکتی ہے۔زندگی کے دھنک رنگوں میں حسنِ اخلاق کی رعناٸی کا اضافہ ہوتا ہے۔معاشرتی زندگی کا کاروان اسی وقت کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے جب جذبوں کی کاٸنات میں روانی ہو۔ایک دوسرے کے ساتھ احسن انداز سے پیش آنا ہی تو سماج کی زینت ہے۔اس ضمن میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ زندگی کی خوبصورتی کا انحصار مل جل کر رہنے اور درد و غم بانٹنے کا نام ہے۔معاشرتی رویوں میں دوریاں پیدا ہونے سے انسانی رشتوں پر کاری ضرب لگتی ہے اور انسانیت کا وقار مجروح ہوتا ہے۔اس بدنما داغ سے سماج کو محفوظ رکھنے کے لیے محبت اور چاہت کے اصولوں کو فروغ دینا ہے۔معاشرت میں دلکشی اچھی عادات اور رویوں سے پیدا ہوتی ہے۔گھر سے سماج اور معاشرہ تک میانہ روی ضروری ہے۔اچھے رویوں اور اچھی عادات سے زندگی پرسکون بنتی ہے۔مثالی معاشرہ کا تصور بھی اچھی تعلیم اور مثبت سوچ سے واضح ہوتا ہے۔نوجوان نسل اور افراد معاشرہ کی زندگی میں تبدیلی مثبت طرز عمل اور اسلامی طرز تہذیب و تمدن سے ممکن ہے۔
Leave a Reply