rki.news
تحریر: ڈاکٹرمنور احمد کنڈے۔ ٹیلفورڈ۔ انگلینڈ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
خنزیر کا گوشت ازل سے کئی مذاہب میں نفرت و اجتناب کا نشان رہا ہے۔ یہ فقط ایک ذائقے یا غذا کا معاملہ نہیں بلکہ تہذیب، عقیدہ، روحانیت اور اطاعت کا آئینہ ہے۔ انسانی تاریخ میں کم ہی ایسے جانور ہوں گے جن پر اتنی واضح، مسلسل اور مشترکہ مذہبی ممانعت موجود ہو، جتنی سور پر ہے۔ اسلام، یہودیت اور ابتدائی عیسائیت تینوں نے اسے ناپاک قرار دیا، مگر رفتہ رفتہ عیسائی دنیا میں اس کی حرمت پر جو اجماع تھا، وہ بکھر گیا، اور اب یہ سوال ذہنوں میں اٹھتا ہے کہ جو قومیں حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ کی تعلیمات کی وارث ہونے کا دعویٰ رکھتی ہیں، وہ اس کھلے حکم کی مخالفت کیوں کرتی ہیں؟
قرآن مجید سور کو ان اشیاء میں شمار کرتا ہے جن کا کھانا ایک مسلمان کے لیے قطعاً حرام ہے۔ یہ حرمت صرف جسمانی یا طبی مفاسد پر مبنی نہیں بلکہ ایک روحانی و اخلاقی نظم کا حصہ ہے جس میں بندہ اپنے رب کے حکم کے آگے سر جھکاتا ہے، خواہ وہ حکم کی حکمت کو پوری طرح سمجھے یا نہ سمجھے۔ سورۃ البقرہ، سورۃ المائدہ، سورۃ الانعام اور سورۃ النحل میں اسے نجس قرار دیا گیا، اور اس کا گوشت کھانے کو حدودِ حلال سے تجاوز سمجھا گیا ہے۔ اس پابندی میں صرف اجتناب نہیں، بلکہ اس کے پیچھے وہ تصورِ طہارت کارفرما ہے جو اسلامی زندگی کی بنیاد ہے۔
یہودیت، جو حضرت موسیٰؑ کی شریعت کی پیروکار ہے، اس معاملے میں اسلام کے ہم قدم رہی ہے۔ تورات کی کتاب ’احبار‘ اور ’استثنا‘ میں خنزیر کو ناپاک جانور قرار دے کر اس کے گوشت سے پرہیز کا حکم دیا گیا ہے۔ خنزیر کا حلال نہ ہونا، اس کی جسمانی ساخت اور خوراک سے بھی جوڑا گیا ہے، کہ یہ جانور کچلی رکھتا ہے مگر جگالی نہیں کرتا، اور گندگی میں رغبت رکھتا ہے، جس بنا پر یہ شریعتِ موسوی میں ناپاک قرار پایا۔ آج بھی قدامت پسند یہودی ان احکامات پر سختی سے عمل کرتے ہیں اور خنزیر کو ناپاک اور ممنوع غذا مانتے ہیں۔
اس کے برعکس عیسائیت میں ایک عجب تبدیلی نے جنم لیا۔ حضرت عیسیٰؑ خود یہودی شریعت کے پیروکار تھے اور اس کے احکام کی تکمیل کا اعلان کیا۔ انجیلِ مقدس میں اُن کے اقوال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تورات کو منسوخ کرنے نہیں بلکہ اس کی تکمیل کے لیے آئے تھے۔ مگر ان کے بعد پولُس رسول نے ایک نئی تشریح پیش کی، جس میں ظاہری احکام کی سختی کو ایمان کی آسانی سے بدل دیا گیا۔ ان کے مطابق نجات اعمال سے نہیں بلکہ صرف ایمان سے حاصل ہوتی ہے، اور اس بنا پر شریعت کے بعض عملی احکام کو معطل سمجھا گیا، جن میں سور کا گوشت بھی شامل ہے۔ اس رائے نے وقت کے ساتھ زور پکڑا اور بالآخر بیشتر عیسائی فرقوں نے خنزیر کے گوشت کو حلال مان لیا، حالانکہ ان کی مذہبی کتاب میں حضرت موسیٰؑ اور دیگر انبیاء کی وہی تعلیمات موجود ہیں جو سور کی حرمت پر قائم تھیں۔
طبی نقطۂ نظر سے بھی اس معاملے پر کافی بحث ہوئی ہے۔ خنزیر کا گوشت ماضی میں کئی بیماریوں کی وجہ سمجھا جاتا رہا ہے، جن میں سب سے معروف بیماری ’ٹریچینوسِس‘ ہے، جو ایک قسم کے کیڑے کے ذریعے انسان کو متاثر کرتی ہے۔ نیز، سور کا جسم فطری طور پر پسینے کے غدود نہیں رکھتا، جس کے باعث اس کے بدن میں زہریلے مادے جمع رہتے ہیں، اور ان کے گوشت میں منتقل ہونے کے خطرات کا احتمال رہتا ہے۔ جدید سائنس میں اس کے خلاف احتیاطی تدابیر ضرور موجود ہیں، مگر حرمت کے حکم کا دار و مدار صرف سائنسی پہلو پر نہیں رکھا جا سکتا۔ اگر صرف نقصان یا فائدے کو معیار بنایا جائے تو پھر کئی ایسی اشیاء جنہیں نقصان دہ سمجھا جاتا ہے، وہ بھی حرام ہونی چاہئیں، جبکہ دین کا دائرہ اس سے وسیع تر ہے۔
اسلام میں حلت و حرمت کا فیصلہ صرف عقلی یا سائنسی بنیادوں پر نہیں بلکہ وہ خالصتاً وحی کے تابع ہے۔ یہاں بندہ عقل کی تعظیم کے ساتھ ساتھ، وحی کے سامنے عجز اختیار کرتا ہے۔ قرآن میں سور کے گوشت کی حرمت کے ساتھ ایک جملہ اکثر آتا ہے: “یہ سب ناپاک ہیں”۔ یعنی اس میں ایک روحانی آلودگی کا تصور بھی ہے، جو محض جسمانی نقصان سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ انسان صرف بدن سے نہیں بلکہ روح سے بھی بنتا ہے، اور جو چیز اس کی روحانیت کو مکدر کرے، وہ خواہ ذائقے میں خوشگوار ہو یا فائدے میں نمایاں، اس سے پرہیز لازم ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ آج بھی بہت سے عیسائی، جب اپنی مذہبی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں تو سور کے خلاف واضح احکام دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ مگر صدیوں کے عقیدہ سازی کے بعد وہ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ان پر اب ان احکام کا اطلاق نہیں ہوتا۔ یہ وہی رویہ ہے جس کے باعث وقت گزرنے کے ساتھ کئی الٰہی احکام محض رسومات یا تاریخی باقیات بن کر رہ جاتے ہیں، جبکہ اسلام نے اس زوال کے خلاف اپنی اصل کو محفوظ رکھا، اور آج بھی قرآن کی زبان میں وہی حرمت تازہ ہے جو چودہ سو سال قبل نازل ہوئی تھی۔
خلاصہ یہی ہے کہ سور کی حرمت صرف ایک اجتناب نہیں بلکہ ایک شعور ہے، ایک بندگی کا اعلان ہے کہ بندہ وہی کھاتا ہے جو اس کا رب حلال ٹھہرائے، اور جسے ناپاک قرار دے، اُس سے خواہ کیسا ہی فائدہ کیوں نہ ہو، پرہیز کرتا ہے۔ انسان کی عقل کو وہی وقار ملتا ہے جب وہ وحی کے تابع ہو۔ یہی فرق ہے مومن اور محض فہم پرست کے طرزِ زندگی میں۔
—
حوالہ جات:
1. القرآن، سورۃ البقرہ: 173
2. القرآن، سورۃ المائدہ: 3
3. القرآن، سورۃ الانعام: 145
4. القرآن، سورۃ النحل: 115
5. تورات، احبار (Leviticus) 11:7
6. تورات، استثنا (Deuteronomy) 14:8
7. انجیل متی (Matthew) 5:17
8. مرقس (Mark) 7:18-19
9. اعمال کی کتاب (Acts) 10:13-15
10. رومیوں (Romans) 14:14
11. Encyclopaedia Britannica – Trichinosis
12. World Health Organization (WHO) – Foodborne parasites in pork
Leave a Reply