rki.news
تحریر احسن انصاری
ایران اور اس کے دو دیرینہ مخالفین — امریکہ اور اسرائیل — کے درمیان کشیدگی دہائیوں سے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست پر غالب ہے۔ ان دونوں ممالک کا بظاہر مؤقف یہی ہے کہ وہ ایران کو ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے سے روکنا چاہتے ہیں۔ تاہم کئی مبصرین، سیاسی تجزیہ کاروں اور سفارتی حلقوں کا ماننا ہے کہ معاملہ صرف جوہری پروگرام تک محدود نہیں، بلکہ ان طاقتوں کا اصل مقصد تہران میں حکومت کی تبدیلی ہے۔
صورتحال کو سمجھنے کے لیے محض سرکاری بیانات پر اکتفا کرنا کافی نہیں۔ ایران بارہا یہ دعویٰ کرتا رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پُرامن ہے اور اس کا مقصد صرف توانائی پیدا کرنا، طبی تحقیق اور سائنسی ترقی ہے۔ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کی کئی مرتبہ کی گئی تفتیش کے باوجود ایسا کوئی قطعی ثبوت نہیں ملا جس سے یہ کہا جا سکے کہ ایران خفیہ طور پر ایٹمی ہتھیار بنا رہا ہے۔ اس کے باوجود امریکہ اور اسرائیل کو مستقل شک ہے کہ ایران کا یہ پروگرام ایٹمی بم بنانے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔
اگر صرف جوہری پروگرام ہی اصل مسئلہ ہوتا، تو 2015 میں طے پانے والا “جوائنٹ کمپریہینسو پلان آف ایکشن” (JCPOA) اس مسئلے کا حل ہونا چاہیے تھا۔ اس معاہدے کے تحت ایران نے یورینیم کی افزودگی میں واضح کمی، سخت نگرانی، اور ایٹمی مواد بیرونِ ملک بھیجنے جیسے اقدامات پر رضامندی ظاہر کی۔ بدلے میں عالمی پابندیاں ختم کی گئیں اور ایران کو عالمی مالیاتی نظام اور تیل کی منڈیوں تک رسائی دی گئی۔ اس معاہدے کو بیشتر عالمی قوتوں نے جوہری پھیلاؤ روکنے کی ایک بڑی کامیابی قرار دیا۔ لیکن 2018 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پہلا دورِ حکومت میں امریکہ نے یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کی اور ایران پر سخت ترین اقتصادی پابندیاں دوبارہ عائد کر دیں۔ اس “زیادہ سے زیادہ دباؤ” کی پالیسی نے ایرانی معیشت کو بُری طرح متاثر کیا، انسانی بحران کو جنم دیا اور ایران کو معاہدے کی شرائط سے بتدریج پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ اسرائیل، جو شروع ہی سے اس معاہدے کا سخت مخالف تھا، اسے ایک خطرناک کمزوری اور ایران کے ساتھ “مفاہمت” قرار دیتا رہا۔ ان دونوں ممالک کا معاہدے سے علیحدگی کا عمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کی اصل پریشانی صرف ایران کے جوہری اقدامات نہیں، بلکہ ایران کی حکومت کا وجود اور اس کی پالیسیز بھی ہیں۔
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے ایران کے جوہری پروگرام کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے، تاکہ وسیع تر جغرافیائی مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔ 1979 کے انقلاب کے بعد سے اسلامی جمہوریہ ایران نے امریکہ کے اثر و رسوخ اور اسرائیل کے وجود کے خلاف ایک واضح پالیسی اختیار کی ہے۔ ایران کی جانب سے حزب اللہ، حماس اور دیگر شیعہ ملیشیاؤں کی حمایت نے اسے ایک علاقائی طاقت کے طور پر ابھارا ہے، جو امریکہ اور اسرائیل کی پالیسیوں کے لیے براہِ راست چیلنج ہے۔ اسی لیے یہ دونوں ممالک ایران کو صرف جوہری خطرے کے طور پر نہیں بلکہ ایک نظریاتی دشمن کے طور پر دیکھتے ہیں جس کا خاتمہ ضروری ہے۔
اس نکتہ نظر کے حق میں کئی شواہد بھی موجود ہیں۔ برسوں سے امریکہ اور اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام کو سبوتاژ کرنے کے لیے خفیہ آپریشنز کرتے رہے ہیں۔ 2010 میں “اسٹکس نیٹ” نامی سائبر حملہ، جو ایرانی سینٹری فیوجز کو تباہ کرنے کے لیے تیار کیا گیا، امریکہ اور اسرائیل کی مشترکہ کارروائی سمجھی جاتی ہے۔ کئی ایرانی سائنس دانوں کو بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا، جن کا الزام اسرائیلی خفیہ اداروں پر لگایا گیا۔ یہ اقدامات نہ صرف ایران کے ایٹمی پروگرام کو سست کرنے کے لیے تھے بلکہ حکومت کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچانے کا ذریعہ بنے۔
علاوہ ازیں، امریکہ نے جلا وطن ایرانی اپوزیشن گروپوں کی بھی کھل کر حمایت کی ہے، جن میں متنازعہ “مجاہدین خلق” (MEK) بھی شامل ہے، جسے ایک وقت میں امریکہ خود دہشت گرد تنظیم قرار دیتا رہا۔ امریکی کانگریس میں اور مختلف تھنک ٹینکس میں ایرانی حکومت کے مخالف رہنماؤں کو مدعو کرنا اور ایران میں جمہوریت کے لیے آواز اٹھانا درحقیقت حکومت کی تبدیلی کی خواہش کا اشارہ ہے، چاہے اسے سرکاری سطح پر تسلیم نہ کیا جائے۔
اسرائیل کا رویہ بھی سخت گیر ہے۔ اسرائیلی قیادت بارہا ایران پر پیشگی حملے کی دھمکیاں دیتی رہی ہے اور واضح طور پر کہا جا چکا ہے کہ وہ ایران کو ایٹمی طاقت بننے نہیں دے گی۔ ان کے بیانات اور اقدامات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ایران کا صرف ایٹمی ہتھیار حاصل کرنا ہی مسئلہ نہیں، بلکہ خود مختار، بااثر اور مخالف حکومت کا برقرار رہنا بھی ناقابلِ قبول ہے۔
اگرچہ ایران میں براہِ راست حکومت کی تبدیلی ایک خطرناک اقدام ہو گا، لیکن امریکہ اور اسرائیل دونوں نے یہ سبق عراق اور شام کے تجربے سے سیکھا ہے کہ براہِ راست فوجی مداخلت کے نقصانات بہت زیادہ ہیں۔ اس لیے وہ ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں، سائبر جنگ، سفارتی تنہائی اور اندرونی خلفشار کو ہوا دینے جیسے اقدامات کو ترجیح دے رہے ہیں۔
امریکہ اور اسرائیل کے اقدامات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی پالیسی صرف ایران کے ایٹمی ہتھیاروں کو روکنے پر مبنی نہیں، بلکہ اس حکومت کو کمزور کرنا، غیر مستحکم بنانا یا بدل دینا ان کی اصل ترجیح ہے۔ چاہے اس کا مقصد مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کا توازن برقرار رکھنا ہو، یا ایک نظریاتی دشمن کو ختم کرنا، اس کشیدگی کا نتیجہ یہی ہے کہ یہ خطہ مسلسل ایک بڑے تصادم کے خطرے میں گھرا ہوا ہے۔
Leave a Reply