rki.news
عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دن بعد آج ہمارے دوست بدھو میاں ہم سے ملنے آئے، اور آتے ہی گِلہ کرنے لگے کہ کیا بات ہے تازہ تازہ بجٹ آیا ہے، ساری دنیا بجٹ پر تبصرے کر رہی ہے، اور آپ جناب دنیا بھر کے موضوعات پر لکھنے میں مصروف ہیں سوائے بجٹ کے ۔ کیا آپ اتنے کور چشم ہو گئے ہیں کہ اتنے اہم معاملے پر آپ کا قلم کچھ بھی لکھنے سے انکاری ہے۔ ہم دم بخود ان کی طرف دیکھتے رہے کہ اگر سانس چلنے کی ہلکی سی آواز بھی بدھو میاں کو آگئی، تو کہیں اس پر بھی باتیں سننی نہ پڑ جائیں کہ اچھا تو جناب زندہ ہیں، مگر جان بوجھ کر بجٹ کی طرف سے آنکھیں موند رکھی ہیں۔ ہم نے تھوڑی ہمت جمع کر کے ہلکی سے کھنکھار سے گلا صاف کیا اور کہا، جناب آپ نے تو بجٹ تقریر بھی پوری توجہ سے سُنی ہے، اس کو پھر اخبار میں بھی پورے انہماک سے پڑھا ہے، پھر اس پر مختلف ٹی وی چینلز پر ہوئے تبصرے بھی پورے انہماک سے دیکھے ہیں، دوستوں کی محافل میں ہوئے گرما گرم مباحث میں بھی خوب خوب شرکت کی ہیں، تو بدھو میاں درمیان میں سے بات اچک کر اور فوراً سینہ پھلا کر کہنے لگے، بالکل ہم اس ملک کے شہری ہیں اور ہمیں اپنے لئے حکومت کی طرف سے کئے گئے فیصلوں کی بابت مکمل آگاہی ہونی چاہیے۔ اب اگر شہر کوئٹہ کے چائے کے ہوٹلوں پر بجٹ پر بحث نہ ہو رہی ہو تو ایسا لگتا ہےکہ رونقیں ہی مانند پڑ گئی ہیں۔ اس لئے ہم نے تو بھرپور حصہ لیا ، پھر ہمیں گھورتے ہوئے کہا مگر آپ ہم کو بجٹ پر خاموش نظر آ رہے ہیں، اس کی آخر کیا وجہ ہے۔ ہم نے ادھر ادھر دیکھا کہ جان بخشی کی شاید کوئی راہ نکل آئے، مگر پھر سارے راستے مسدود دیکھ کر ہم نے بھی بحث کرنے کا فیصلہ لیتے ہوئے کہنا شروع کیا، بدھو میاں جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے، ہر سال جون کے مہینے میں کوئی چاہے یا نہ چاہے بجٹ کا آنا ضروری ہے، اور آنے کے بعد پھر یہ بجٹ کس کس پر بجلی گراتا ہے وہ بھی سب کو پتہ چل جاتا ہے۔ کئی مواقع پر بجٹ آنے کے بعد اُس کا بچہ منی بجٹ کی صورت میں بھی آتا رہا ہے، کہ وہ اہداف جو بجٹ میں اندازاً حاصل کرنا لکھے گئے تھے وہ حقیقتاً ناقابل حصول تھے سو منی بجٹ میں اہداف حاصل کرنے کے لئے غریب کے لقموں پر نظر رکھتے ہوئے لقمے کم کرنے کی تلقین بھی کی جاتی رہی ہے ۔ بدھو میاں اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہنے لگے یہ بات تو درست ہے، متعدد بار ہم منی بجٹ کا ظلم بھی سہتے رہے ہیں۔ ہم نے پھر کہنا شروع کیا بجٹ تو دراصل ایک ایسا گورکھ دھندہ ہے، جس میں عوام پر ڈالے گئے بوجھ کو نہایت خوبصورت الفاظ کا جامہ پہنا کر خوش کن مستقبل کے خواب دکھاتے ہوئے عوام سے تھوڑی سی قربانی کا کہہ کر عوام کو گدھا سمجھ کر لاد دیا جاتا ہے ، گدھا سن کر پتہ نہیں کیوں بدھو میاں گدھے کی طرح دولتیاں مارنے کو تیار نظر آنے لگے۔ ہم نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہنا شروع کیا کہ یہ الگ بات ہے کہ ہر سال تھوڑی تھوڑی قربانی کے نام پر قربانیاں دیتے دیتے یہ قربانی اب غریب پر ہمالیہ پہاڑ جتنی بھاری قربانی بن چکی ہے۔ ایک عام آدمی کو بڑے بڑے اہداف کے حصول سے تب محبت ہوتی ہے جب اس کو اپنے گھر کے دروازے پر خوشحالی کی دستک زوروں سے محسوس ہو ۔ غریب آدمی خوشحالی کی صرف عملی تعریف سمجھتا ہے۔ آپ لفاظی میں اس کے ارد گرد شیخ چلی کا محل کھڑا کر دیں، وہ سپنے سے جاگتے ہی پوچھے گا، اس بجٹ میں میری تنخواہ میں کتنا اضافہ ہوا، اور پھر وہ اسے اپنے اخراجات سے جوڑ کر بتا دے گا کہ اس بجٹ میں اس کے لئے حقیقت میں کیا موجود ہے اور باقی کتنا صرف ایک خوشگوار سپنا ہے۔ ایک بے روزگار بجٹ آنے کے بعد فوری سوال یہی کرے گا کہ اس میں روزگار کے کتنے مواقع پیدا کرنے کی کوشش ہوئی؟ اور جواب نفی میں سنتے ہی اس کے نزدیک بجٹ بے معنی سی ایک ایسی دستاویز رہ جائے گی جو اس کی مشکلات میں صرف مزید اضافے کا عندیہ دینے آئی ہو ۔ کسان ہوں ، کاروباری حضرات ہوں یا کسی بھی عام طبقے سے تعلق رکھتا شخص اس کا پہلا سوال یہی ہوگا، اس بجٹ میں ہمارے لئے کیا ہے؟ اور جب اس کو جواب ملے گا کہ مزید قربانی دیجئے۔ تب وہ ضرور سوچے گا کہ اس بجٹ کو بنانے والے نے خود کتنی قربانی دی؟ اس بجٹ کو پاس کرنے والے ارکان اسمبلی نے کتنی قربانیاں دیں؟ کیا اس بجٹ کو نافذ کرنے والے قربانیاں دے رہے ہیں؟ کیا آئی ایم ایف حکومت سے صرف غریبوں پر ٹیکس نافذ کرنے کی بات کرتی ہے؟ یا شاہانہ اخراجات میں کمی کی بھی بات کرتی ہے؟ بدھو میاں نے ایک دم پانی کا گلاس سامنے کرتے ہوئے کہا، ارے آرام سے ہم نے غصہ ہونے کو تھوڑی کہا ہے۔ آپ غور سے تو دیکھیں موجودہ بجٹ میں کافی اچھے اقدامات بھی کئے گئے ہیں ، جن میں حکومتی اخراجات میں %7 کمی کی گئی ہے، ملکی دفاع کی مضبوطی کے لئے دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے، حکومتی خسارے کا ہدف %3.9 مقرر کر کے خسارہ کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، ٹیکس محصولات میں اضافہ کر کے بجٹ خسارہ کم کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے، یہ سنتے ہی ہم نے ہنستے ہوئے کہا تو وہ ٹیکس محصولات کا بوجھ اٹھائے گا کون؟ اسی طرح تعلیم پر خرچ بجٹ کا صرف%2.1 ہے، جبکہ ترقی پذیر ممالک تک میں بھی تعلیم کے لئے 4 سے 6 فیصد رکھا جاتا ہے جس پر یونیسکو بھی زور دیتی ہے ۔ اسی طرح آج کل پاکستان کا ایک اہم مسئلہ موسمیاتی تبدیلی کا ہے، جس کے تحفظاتی پروگرام پر ہونے والے اخراجات میں بھی کمی کی گئی ہے، جس کا براہ راست اثر عوام پر پڑے گا ، جن کے لئے اس موسمیاتی تبدیلی سے مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بدھو میاں کھسیانی سی مسکراہٹ کیساتھ کہنے لگے آپ کی تو عادت بن گئی ہے بے جا تنقید کرنے کی۔ کچھ خوش کن الفاظ بھی لکھ دیا کریں، اگر حکومتی اقدامات پر صدقِ دل سے عمل ہوا تو اگلا بجٹ عوام کے لئے راحتیں لے کر آئے گا، اور ہم یہ سنتے ہی ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئے۔ اب ہمارا اور بدھو میاں کا بجٹ میں مشکلات بڑھنے کے غم سے نبرد آزما عوام کو یہی مشورہ ہے کہ دعا کریں کہ حکومت صدقِ دل سے بجٹ تجاویز پر عمل کرے، اور صدقِ دل سے بجٹ پر عمل ہو جانے کے بعد اگلا بجٹ عوام کے لئے ضرور بالضرور راحتیں لے کر آئے گا۔ عوام سے مزید گزارش ہے کہ اگر اگلا بجٹ راحتیں لے کر نہ آیا تو یہی جملہ دوبارہ پڑھ کر اس سے اگلے بجٹ کا انتظار اور دعائیں شروع کر دیں ۔
Leave a Reply