rki.news
تحریر احسن انصاری
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ میں امریکہ کی براہ راست فوجی مداخلت کا اعلان کیا۔ امریکہ نے ایران کے نیوکلیئر ٹھکانوں — نطنز، اصفہان اور فردو — پر حملوں کے لیے B-2 بمبار طیارے اور 30,000 پاؤنڈ وزنی “بنکر بسٹر” بم گرائے۔ یہ ایک سنگین اقدام ہے جو 12 جون کو اسرائیل کے ابتدائی حملوں کے بعد آیا۔ اب تک ایران میں 430 سے زائد افراد اور اسرائیل میں 24 ہلاک ہو چکے ہیں، اور یہ جنگ اب صرف علاقائی مسئلہ نہیں رہی بلکہ عالمی بحران کی صورت اختیار کر چکی ہے، خاص طور پر جب ایران نے تیل کی ترسیل کی عالمی شاہراہ آبنائے ہرمز کو بند کر دیا۔
امریکی فضائی حملے ایران کے انتہائی محفوظ نیوکلیئر مراکز پر کیے گئے، جن میں فردو جیسا مرکز شامل تھا جو 90 میٹر گہرائی میں چٹانوں کے نیچے قائم ہے۔ اگرچہ صدر ٹرمپ نے اسے کامیاب مشن قرار دیا، مگر ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ افزودہ یورینیم پہلے ہی محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) نے بھی ابتدائی رپورٹ میں تابکاری کے اخراج کی تردید کی ہے۔ ایران ممکنہ طور پر ایک سے دو سال کے اندر انہیں دوبارہ تعمیر کر سکتا ہے۔
ایران نے جوابی ردِ عمل میں آبنائے ہرمز بند کر دی، جو کہ مغربی دنیا کو معاشی نقصان پہنچانے کا ایک اسٹریٹجک قدم تھا۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں فوری طور پر 7 فیصد بڑھ گئیں۔ گولڈمین سیکس نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہ بندش جاری رہی تو قیمت 100 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر سکتی ہے، جو دنیا کو کساد بازاری کی طرف لے جا سکتی ہے۔ ایران نے مزید حملوں کی دھمکی دی ہے، جن میں امریکی بحری جہازوں پر میزائل حملے، سائبر اٹیک، اور بیرونی ممالک میں دہشت گرد نیٹ ورک کے فعال ہونے کے امکانات شامل ہیں۔
اس جنگ کے معاشی اثرات دنیا بھر میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ آبنائے ہرمز کی بندش نے تیل کی ترسیل کو مفلوج کر دیا ہے، جس سے توانائی کی فراہمی کا نظام درہم برہم ہو گیا ہے۔ ایران کے ساؤتھ پارس گیس فیلڈ پر حملے نے مزید خوف پیدا کر دیا ہے۔ قطر اور دیگر جہاز رانی کی کمپنیاں جہازوں کو متبادل راستوں پر لے جانے کی ہدایات دے چکی ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی ایئرلائنز ایمریٹس اور اتحاد نے عراق، ایران اور اردن کے لیے اپنی پروازیں معطل کر دی ہیں، جبکہ اسرائیل نے اپنی فضائی حدود مکمل طور پر بند کر دی ہے، جس سے سفری اور تجارتی سرگرمیاں رک گئی ہیں۔
ایندھن کی قیمتوں میں اضافے نے عالمی معیشت کو غیر یقینی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ امریکہ میں فیڈرل ریزرو نے سود کی شرحوں میں مزید کمی کو موخر کر دیا ہے، جبکہ یورپ میں معاشی جمود اور مہنگائی کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ ترقی پذیر ممالک جیسے پاکستان اور بھارت کو کرنسی کی قدر میں کمی اور درآمدی مسائل کا سامنا ہے۔
خطے کے قریبی ممالک کو بھی اس جنگ کے شدید نتائج کا سامنا ہے۔ پاکستان، جو پہلے ہی داخلی چیلنجز سے نبرد آزما ہے، اب ممکنہ افغان پناہ گزینوں کی آمد کا سامنا کر رہا ہے۔ ایران میں مقیم 5 لاکھ افغان شہری ممکنہ طور پر پاکستان کا رخ کریں گے، جس سے پاکستان کے وسائل پر دباؤ بڑھے گا۔ حکومت نے بلوچستان میں پانچ سرحدی راستے بند کر دیے ہیں اور ایران میں پھنسے ہوئے طلباء اور زائرین کو وطن واپس بلا لیا ہے۔ سیکورٹی خطرات بھی بڑھ گئے ہیں کیونکہ ایران ممکنہ طور پر بلوچستان میں سرگرم باغی گروہوں کو متحرک کر سکتا ہے، جن کی کارروائیاں 62 ارب ڈالر مالیت کے چائنا-پاکستان اکنامک کاریڈور (CPEC) اور گوادر بندرگاہ کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔ پاکستان کی بڑی شیعہ آبادی کی موجودگی میں امریکہ یا اسرائیل کی حمایت کرنا حکومت کے لیے فرقہ وارانہ بحران کا باعث بن سکتا ہے۔
افغانستان میں صورتحال بھی بدترین ہوتی جا رہی ہے۔ طالبان حکومت کے پاس ایران سے آنے والے مہاجرین کو سنبھالنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ خوراک کی قلت مزید بڑھ سکتی ہے اور ایران طالبان کے ساتھ اپنے روابط استعمال کر کے پاکستان مخالف دہشت گرد گروپوں جیسے تحریک طالبان پاکستان (TTP) کو دوبارہ فعال کر سکتا ہے، جس سے ڈیورنڈ لائن پر کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
چین، جو ایران سے 12 فیصد تیل درآمد کرتا ہے، اس بندش سے براہ راست متاثر ہو رہا ہے۔ مالاکا اسٹریٹ جیسے متبادل راستے طویل اور مہنگے ہیں، جس سے چینی صنعتوں پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ پاکستان میں CPEC منصوبے بلوچ مزاحمت اور مہاجرین کے دباؤ کی وجہ سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ چین فوجی مداخلت سے گریز کرے گا لیکن اپنے تجارتی مفادات کی حفاظت کے لیے بحری نگرانی میں اضافہ کر سکتا ہے۔
عالمی سطح پر امریکہ اس بحران کے باعث دفاعی اور سفارتی طور پر کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے فوجی وسائل خلیج میں مرکوز ہو چکے ہیں، جس سے ایشیا میں چین کے خلاف اس کی توازن کی حکمت عملی متاثر ہو رہی ہے۔ روس اور چین، خود کو غیر جانبدار ثالث کے طور پر پیش کر رہے ہیں، اور اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ روس ایران کو اسلحے کی فروخت بڑھا سکتا ہے جبکہ چین تعمیر نو کے وعدے کر کے تیل کے مزید معاہدے حاصل کر سکتا ہے۔ دونوں ممالک نے ایران کے خلاف اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو روک دیا ہے۔
عرب ممالک بھی اب اپنے مؤقف پر نظرثانی کر رہے ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ایران کی کمزوری سے خوش تو ہیں، لیکن اسرائیلی جارحیت پر کھل کر تنقید کر رہے ہیں۔ قطر اور عمان نے ثالثی کا کردار سنبھال لیا ہے اور ایرانی جنگ بندی کے پیغامات امریکہ تک پہنچا رہے ہیں۔ اسرائیل، جو کچھ عرب ریاستوں کے نزدیک ایک توازن قائم کرنے والا فریق سمجھا جاتا تھا، اب ایک جارح ملک کی حیثیت سے دیکھا جا رہا ہے۔
ایران میں انسانی بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔ اسرائیلی حملوں میں 220 سے زائد عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں اسپتال، میڈیا ہاؤسز اور بنیادی ڈھانچہ شامل ہے۔ تہران میں بجلی اور خوراک کی قلت پیدا ہو چکی ہے، اور شمالی ایران میں 60 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ایرانی حکومت نے انٹرنیٹ کا 97 فیصد حصہ بند کر دیا ہے، جس سے بینکنگ نظام، رابطہ کاری اور آن لائن سرگرمیاں مفلوج ہو چکی ہیں۔ سائبر حملوں نے ایرانی کرپٹو مارکیٹ کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔
اس تنازعے نے بین الاقوامی قانون کی بھی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ ایٹمی تنصیبات پر حملے بین الاقوامی اصولوں کے خلاف ہیں۔ اگرچہ ایران نے IAEA کے معائنہ کاروں کو کام کرنے دیا ہے تاکہ قانونی جواز برقرار رکھا جا سکے، لیکن امریکہ اور اسرائیل کی کارروائیاں خطرناک مثال قائم کر رہی ہیں۔ بین الاقوامی برادری ایسی یکطرفہ کارروائیوں کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔
مستقبل کے امکانات مزید تشویشناک ہیں۔ ایران ممکنہ طور پر جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوششیں تیز کرے گا، اور سعودی عرب یا ترکی جیسے ممالک بھی اسی راستے پر چل سکتے ہیں، جس سے مشرق وسطیٰ ایک “ملٹی نیوکلیئر زون” میں تبدیل ہو جائے گا۔ دوسری طرف، نیا عالمی اتحاد بھی ابھر سکتا ہے — ایک طرف امریکہ، اسرائیل اور بعض عرب ریاستیں، اور دوسری طرف چین، روس اور ایران۔
ایران کے اندر سیاسی نظام کو بھی سخت چیلنج درپیش ہیں۔ پاسداران انقلاب کے اعلیٰ کمانڈروں کی ہلاکتوں اور عوامی غصے کے بعد موجودہ قیادت کو بقا کا بحران لاحق ہو چکا ہے۔ اگر حکومت کمزور ہوئی تو سخت گیر عسکری گروپ یا سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی طرز پر جدیدیت کا علمبردار فوجی رہنما اقتدار سنبھال سکتا ہے۔
امریکہ کی براہِ راست مداخلت اور آبنائے ہرمز کی بندش نے اس تنازعے کو ایک عالمی بحران میں تبدیل کر دیا ہے۔ اگرچہ ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر حملے وقتی طور پر مؤثر ہو سکتے ہیں، لیکن اس جنگ کے معاشی، سفارتی اور سیکیورٹی اثرات کہیں زیادہ مہلک ہیں۔ پاکستان، افغانستان اور چین جیسے ممالک مہاجرین، توانائی بحران، اور سلامتی کے خطرات سے نبرد آزما ہیں، جبکہ پوری دنیا ایٹمی پھیلاؤ، اقتصادی بحران، اور عالمی طاقتوں کی نئی صف بندی جیسے خطرات کا سامنا کر رہی ہے۔ جیسا کہ چرچل نے کہا تھا: “بڑی جنگیں، چاہے جیتی جائیں یا ہاری جائیں، واقعات کی سمت بدل دیتی ہیں۔” اگر علاقائی سلامتی کے مؤثر ادارے اور سفارتی کوششیں نہ کی گئیں تو یہ جنگ عالمی نظام کو ازسرِنو تشکیل دے سکتی ہے۔
Leave a Reply