rki.news
” اخبارِ مشرق”
احمد وکیل علیمی، کانکی نارہ
مغربی بنگال میں اردو اخبار کی تاریخ کی داستان جام ِ جہاں نما سے شروع ہوتی ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے الہلال اخبار نے اردو صحافت کو پاؤں پاؤں چلنا سکھایا۔ لیکنبنگال میں جدید دور میں نئی تکنیک اور آفسیٹ میں پہلی بار اردو اخبار چھاپنے کی ناقابلِ فراموش اور قابلِ اعتنا حقیقت جناب وسیم الحق جیسے جیالے، با حوصلہ دور بین شخص وصحافی سے شروع ہوتی ہے۔ اللہ نے اپنے وطن بھارت میں بھی آفسیٹ طرز پر اردو اخبار شائع کرنے والے ایک شخص کو اس حیثیت کا مالک بنادیا جنہوں نے مغربی بنگال میں سب سے پہلے آفسیٹ طرز پر اردو اخبار شائع کرنے کی سعادت حاصل کی۔ جسے ہم آج ‘ اخبارِ مشرق’ کے نام سے جانتے ہیں۔ 44سال پہلے اردو کے اس اخبار مشرق نے مغربی بنگال کی اردو صحافت میں انقلاب برپا کردیا تھا۔ جب کہ اس زمانے میں آفسیٹ کی مہنگی طباعت اخبارِ مشرق کی اشاعت میں مالی دشواری سے نبرد آزما تھی۔ لیکن مادری زبان اردو سے محبّت کا جنون مالکِ اخبار جناب وسیم الحق پر ایسا سوار تھا کہ گھاٹے کا سودا کے باوجود اخبار کی اشاعت کو مجروح ہونے سے بچاتے رہے اور اشاعت کے سفر کو جاری رکھا۔ اہلِ بنگال کے لیے اردو روزناموں میں ” اخبارِ مشرق” کی اشاعت کا گراف اونچا ہوتا گیا۔ صاف ستھری طباعت, عمدہ کاغذ اور رنگین تصاویر کے ساتھ جب اخبارِ مشرق عوام کے ہاتھوں میں آیا تو اسے فوراً ہی محبوبیّت اور مقبولیت حاصل ہوگئی۔ بغیر کسی قیل و قال کے یہ لکھنا باعثِ افتخار سمجھتا ہوں کہ اخبار کی دُنیا میں رہ کر اخبار ِ مشرق کے علمی و ادبی ماحول نے خاکسار کو دوچار تیڑھے میڑھے جملے لکھنے کا شعور بخشا۔ اربابِ قلم میں بہرہ مند ہونے کا اعزاز اخبارِ مشرق سے عبارت ہے۔ اردو اخبار کی دنیا ایک ایسی دنیا ہے جس نے آنکھیں کھلی رکھ کر انہماک اور ذمہ داری کے ساتھ اپنی کارگزاری کو اوّلیت دی، اس نے تھوڑی بہت واقفیت حاصل کرنے میں ضرور کامیابی حاصل کی ہے۔ آج اردو کے مختلف اخباروں میں اپنی واقفیت ، علمیت اور تجربات کے گھوڑے دوڑانے والے دو، ایک لازمی طور پر نظر آئیں گے۔
جناب وسیل الحق نے نئی دہلی سے جب اخبارِ مشرق کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا تو کولکاتا والے اخبارمشرق ایڈیشن کی ذمہ داری ان کے ہوش مند ، عاقل اور محنتی صاحبزادے جناب ندیم الحق جیسے مرد آہن کےشانے پر آگئی۔ انہوں نے اپنے والد محترم کی آرزو کا خون ہونے نہیں دیا۔ ندیم الحق صاحب نے پوری ذمہ داری اور عزم بالجزم کے ساتھ اس چیلنج کو فرمان واجب الاذعان سمجھا۔ اخبارِ مشرق ان کی ہی نگرانی میں اشاعت کی منزلیں سر کر رہا ہے۔ ندیم الحق صاحب کو ممبر آف پارلیمنٹ ہونے کا اعزاز بھی اللہ رب العزّت نے بخشا ہے۔ فی زمانہ وہ مغربی بنگال اردو اکاڈمی کے نائب چیئر مین کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وزیر فروغِ انسانی وسائل سے ایک بار ندیم الحق صاحب نے سوال کیا کہ اسکولوں میں اردو کی لازمی تعلیم کا منصوبہ ہے یا نہیں؟ سہ لسانی فارمولے کے تحت تعلیم دی جارہی ہے یا نہیں؟فروغِ انسانی وسائل کے وزیر نے جواب دیا کہ” اسکولوں میں اردو کی تعلیم لازمی کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے اور سہ لسانی کا اصل مقصد تین زبانوں کی تعلیم کا نظم کر کے اسکولی تعلیم کی زبانوں
ہم آہنگی اور مساوات قائم کرنا ہے”۔
اردو چوں کہ صرف مخصوص ریاست کی زبان نہیں ہے، یہ پورے بھارت کی زبان ہے اور جب اردو بھارت کی پیدوار ہے تو اردو کا پورا حق پہنچتا ہے کہ اسے تمام سرکاری سہولتیں اور مراعات حاصل ہوں۔ملک کی تمام ریاستوں میں اردو کو روزی ، روٹی سے جوڑ کر ہی سرکار اردو کے ساتھ انصاف کرسکتی ہے۔ ندیم صاحب نے پارلیمنٹ میں جو سوال اٹھایا ، اسے عملہ جامہ پہنانے کے لیے اور اردو کے جائز مطالبے کی تکمیل کے لیے پورے بھارت کے اہلِ اردو کو ایک لپیٹ فارم پر آکر اور اردو کے کاز کے لیے سنجیدہ ہوکر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔۔اب اہلِ اردو کی مُہِم ہونی چاہیے کہ ہم اردو کو پورے بھارت میں روزی روٹی سے جوڑ کر ہی دم لیں گے۔ بلکہ میں ندیم الحق صاحب سے التماس کروں گا کہ ہمارے بنگال میں بھی اردو کے فروغ و ترقّی کے لیے سنجیدگی اختیار کر کے اردو کو ہر محاذ پر اس کا حق دلانے کی کامیاب کوشش کریں۔ اردو اسکولوں میں انگلش پڑھانے کے لیے شیڈول کاسٹ، شیڈول ٹرائب اور او بی سی امیدواروں کے مخصوص کردینے کا ناقابلِ تلافی نقصان یہ ہے کہ اسکول کو ایسا امیدوار دستیاب ہی نہیں ہوا ہے اور دوسری طرف ان گنت امیدواروں کی زندگیاں مایوسی اور گھاٹے کے حصار میں ہیں کہ مطلوبہ ڈگری اور صلاحیت کے باوجود ان کی ملازمت کی عمر کی حد ختم ہوچکی ہے ۔ اس طرح آزادی کے بعد سے آج تک اردو اسکولوں کے نقصانات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ خاکسار خود ایک اردو میڈیم ہائی اسکول میں انگلش کا اعزازی ٹیچر تھا۔ یہ کہا گیا تھا کہ اردو کا پوسٹ ” پابندی” Restriction کے حصار میں ہے۔ کوشش کر کے میری تقرری کے راستے ہموار کر لیے جائیں گے۔ لیکن آج 40 برسوں سے وہ پوسٹ خالی پڑا ہے۔ تمام اسکولوں کی انتظامیہ تھک ہار کر اس تعلق سے اب کوشش کرنا چھوڑ چکی ہے۔
گزشتہ دنوں ریاستی سرکار کے اس علانیہ سے کہرام مچا ہوا تھا کہ مغربی بنگال سوِل سروِس ایکزام میں نئے نصاب کے مطابق ہر زبان کے امیدوار کو 300. نمبر کا بنگلہ سبجیکٹ پاس کرنا ہوگا تبھی ایکزام کے دیگر مضمون کی کاپیوں کی جانچ کی جائے گی۔ اس علانیے نے اردو ، ہندی ، ہندی اور سنتھالی میڈیم کے اسٹوڈنٹس کو حصار ِ مایوسی میں جکڑ لیا۔ اس غیر منطقی فیصلے کے خلاف محبّان ِ اردو اور اردو تئیں پرُخلوص تنظیموں نے صف آرا ہو کر صدائے احتجاج بلند کیا۔ خبر اُڑی کہ حکومت مغربی بنگال نے اردو کے ساتھ دیگر میڈیم والوں کے لیے بنگالی زبان لازمی کرنے کے فیصلے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے چند مہینے کے بعد یہ خبر طشت ازبام ہوِئی کہ بنگلہ کا 300 نمبر کا ایکزام پاس کرنا تمام میڈیم والوں کے لیے لازمی ہے۔ اردو والوں کے پھر کان کھڑے ہوئے۔ ہوش کے ناخن لیتے ہوئے اس غیر منطقی کے خلاف لوگ متحد ہونے لگے۔ تنظیمیں حرکت میں آئیں۔ اہل اردو اور دیگر زبان والوں کے غیض و غضب کی صدائیں اربابِ بست وکشاد تک پہنچ گئیں۔ اسٹریٹ کارنر میٹنگ اور احتجاجی سرگرمیوں کے پیشِ نظر ریاستی حکومت کی جانب سےفیصلہ لینے کی خبریں گشت کرنے لگیں۔ اسی اثناء غیر سرکاری طور پر ڈبلیو بی سی ایس میں اردو و دیگر زبانوں کو نہیں ہٹانے اور 300 نمبر کے بنگالی مضامین کے ایکزامس کے فیصلے کو رد کرنے کی خبر موصول ہوئی۔ لیکن اس بار اہلِ تحریک نے سرکاری گیزٹ کو چشمِ خود سے دیکھنے کا تہیّہ کر لیا تھا۔ بالآخر 17/جون2025کو سرکاری نوٹیفیکیشن شائع کیا گیا کہ سول سروس ایکزامس سے اردو و دیگر مضمون کو نہیں ہٹایا گیا ہے اور بنگلہ پیپرس کی قید بندی ختم کر دی گئی ہے۔ سرکاری نوٹیفیکیشن سے قلبی اطمینان ہوا۔ اب پُرانے نصاب کے مطابق ڈبلیو بی سی ایس ایکزامس ہوں گے۔
لیکن اس طرح کے فیصلے
Leave a Reply