rki.news
جب سے اِک دیپ محبت کا جلا رکھا ہے
ہر طرف شور ہواٶں نے مچا رکھا ہے
ہو سکے تو مِرے دعوے کا بھرم رکھ لینا
تم ہو اپنے یہ زمانے کو بتا رکھا ہے
تذکرہ شام و سحر کر کے تمہارا مجھ سے
شہر والوں نے مِرا زخم ہرا رکھا ہے
ہو کے برباد کسی شخص کے ہاتھوں یارو
میں نے الزام نصیبوں پہ لگا رکھا ہے
رو پڑے حال مرا دیکھ کے پتھر دِل بھی
یوں مجھے تیری جدائی نے ستا رکھا ہے
تیرے ہونے سے بہاریں ہیں چمن میں ہر سو
کچھ بھی دنیا میں کہاں تیرے سِوا رکھا ہے
چاک دامن لیے پھرتے ہیں کہیں دشت میں اب
وہ جو کہتے تھے کہ اِس عشق میں کیا رکھا ہے
اُس کی یادوں سے نہیں کچھ بھی تو حاصل ذُلفی
تم نے کاندھوں پہ یُونہی بوجھ اُٹھا رکھا ہے
ًشاعر ذوالفقار علی ذلفی
( پنڈ دادنخان جہلم )
Leave a Reply