Today ePaper
Rahbar e Kisan International

*ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی، خطے میں امن اور استحکام کی امید*

Articles , Snippets , / Wednesday, June 25th, 2025

rki.news

تحریر: احسن انصاری

ایک حیران کن سفارتی پیش رفت کے تحت ایران اور اسرائیل نے 24 جون 2025 کو جنگ بندی پر اتفاق کر لیا۔ کئی ہفتوں پر محیط شدید فوجی محاذ آرائی کے بعد اس معاہدے نے ایک ممکنہ علاقائی جنگ کے خدشات کو کم کر دیا۔ یہ جنگ بندی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی سے ممکن ہوئی، جنہوں نے “مکمل اور مکمل” فائر بندی کا اعلان کیا۔ معاہدے کے مطابق ایران نے پہلے اپنی فوجی کارروائیاں روکنے پر آمادگی ظاہر کی، جبکہ اسرائیل نے بارہ گھنٹے کے وقفے کے بعد جنگ بندی پر عمل کا وعدہ کیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے بھی اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی تصدیق کی، اور کہا کہ اسرائیل نے اس فوجی مہم میں اپنے بیشتر مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔

تاہم جنگ بندی کے ابتدائی لمحات میں زمینی صورتحال خاصی کشیدہ رہی۔ ایرانی میزائلوں نے جنگ بندی کے وقت سے کچھ دیر پہلے اور بعد اسرائیلی شہر بیرشیوا کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں کم از کم چار شہری جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔ اسرائیل نے فوری جوابی کارروائی کرتے ہوئے ایران میں میزائل لانچنگ سائٹس پر حملہ کیا اور خبردار کیا کہ جنگ بندی کی کسی بھی خلاف ورزی پر سخت جواب دیا جائے گا۔ دوسری جانب ایرانی حکام نے کہا کہ ان کی جنگ بندی اسرائیلی فضائی حملوں کے رکنے سے مشروط ہے، جس نے اس معاہدے کے استحکام پر سوالیہ نشان لگا دیا۔

اس سب کے باوجود جنگ بندی کو ایک مثبت قدم اور خطے کے لیے امید کی کرن قرار دیا جا رہا ہے۔ شدید کشیدگی کے ان دنوں کے بعد، جب حالات ایک وسیع پیمانے کی جنگ کی طرف بڑھ رہے تھے، یہ معاہدہ کروڑوں لوگوں کے لیے سکون کا باعث بنا ہے۔ ایران، اسرائیل اور ہمسایہ ممالک کے شہریوں نے طویل عرصے بعد کسی حد تک سکھ کا سانس لیا ہے، اگرچہ یہ وقتی ہو سکتا ہے۔

اس جنگ بندی کے اقتصادی اثرات فوری طور پر سامنے آئے۔ عالمی مالیاتی منڈیوں نے مثبت ردعمل دیا۔ خام تیل کی قیمتیں، جو آبنائے ہرمز کی ممکنہ بندش کے خوف سے بڑھ گئی تھیں، نمایاں طور پر کم ہوئیں۔ برینٹ کروڈ کی قیمت میں تقریباً 3 فیصد کمی واقع ہوئی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ توانائی کی ترسیل کے بارے میں خدشات کم ہوئے ہیں۔ کئی ممالک میں معطل فضائی پروازیں دوبارہ بحال ہونے لگیں، اور سرمایہ کاروں نے اس کشیدگی کے خاتمے کا خیرمقدم کیا۔ خلیجی ممالک — جیسے متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور قطر — جو تیل پر انحصار کرتے ہیں، کے لیے تجارت کی بحالی اور منڈیوں کا استحکام بہت اہم ہے۔

اقتصادی فوائد کے علاوہ، یہ جنگ بندی سفارتی کوششوں کے لیے بھی ایک نیا موقع فراہم کر سکتی ہے۔ دو دیرینہ دشمنوں کا عارضی طور پر ہی سہی، جنگ بندی پر آمادہ ہونا ظاہر کرتا ہے کہ بین الاقوامی ثالثی خطے میں کشیدگی کم کرنے میں مؤثر کردار ادا کر سکتی ہے۔ اگر یہ جنگ بندی برقرار رہی اور فریقین کے درمیان اعتماد بحال ہوا تو یہ ایران کے جوہری پروگرام، اسرائیل کی سیکیورٹی خدشات اور عرب-اسرائیل تنازع جیسے بڑے مسائل پر بات چیت کا راستہ ہموار کر سکتی ہے۔

ہمساہہ ممالک پہلے ہی اس جنگ بندی کے اثرات محسوس کر رہے ہیں۔ لبنان، جہاں حزب اللہ کی شمولیت اور اسرائیلی گولہ باری سے کشیدگی میں اضافہ ہوا تھا، اب ممکنہ طور پر کسی حد تک امن کا تجربہ کر سکتا ہے۔ حزب اللہ ایران کے قریب سمجھی جاتی ہے اور اسرائیلی اقدامات پر ردعمل دیتی ہے، جس سے بڑے تنازع کا خدشہ رہتا ہے۔ جنگ بندی کی وجہ سے لبنان کے نازک سیاسی اور معاشی حالات پر دباؤ کم ہو سکتا ہے۔

شام میں بھی صورتحال خاصی خطرناک ہو گئی تھی کیونکہ اسرائیل وہاں موجود ایرانی اثاثوں پر فضائی حملے کر رہا تھا۔ جنگ بندی سے یہ حملے وقتی طور پر رک سکتے ہیں، جس سے عام شہریوں کو سکون کا موقع ملے گا۔ عراق میں، جہاں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا امریکی افواج اور دیگر اہداف پر حملے کی دھمکیاں دے رہی تھیں، یہ معاہدہ کشیدگی کم کرنے اور ملکی تعمیر و ترقی پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔

اردن، ترکی اور خلیجی ریاستیں بھی اس جنگ بندی سے مستفید ہو سکتی ہیں۔ یہ ممالک مہاجرین کی آمد، اقتصادی جھٹکوں اور سیکیورٹی خطرات کے لیے تیار ہو رہے تھے۔ اس معاہدے نے ان خدشات کو وقتی طور پر کم کیا ہے اور انہیں علاقائی سفارتی اور اقتصادی تعلقات کی بحالی پر توجہ دینے کا موقع ملا ہے۔

تاہم چیلنجز بدستور موجود ہیں۔ یہ جنگ بندی نازک ہے اور دونوں فریقین ایک دوسرے پر مکمل اعتماد نہیں کرتے۔ جنگ بندی کے ابتدائی گھنٹوں میں ہونے والے حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ خطرہ اب بھی موجود ہے۔ دونوں افواج ہائی الرٹ پر ہیں، اور معمولی سی غلط فہمی یا اشتعال انگیزی دوبارہ کشیدگی کو جنم دے سکتی ہے۔ مزید یہ کہ یہ معاہدہ تنازع کی بنیادی وجوہات کو حل نہیں کرتا، جیسے ایران کے جوہری عزائم، اسرائیل کی علاقائی حکمت عملی، مشرقِ وسطیٰ میں پراکسی جنگیں، اور فلسطینی مسئلہ۔

سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر جیسے علاقائی ممالک بھی آئندہ اقدامات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اگرچہ وہ براہ راست جنگ کا حصہ نہیں تھے، لیکن خطے کی سیکیورٹی میں ان کا بڑا کردار ہے۔ ان میں سے کئی ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے خائف ہیں، اور یہ جنگ بندی انہیں دوبارہ سفارتی کردار ادا کرنے کا موقع دے سکتی ہے۔ دوسری طرف، اگر کسی فریق کو اس معاہدے میں اپنی برتری نظر آئی تو ممکن ہے کہ وہ دوبارہ جارحانہ رویہ اختیار کرے۔

امریکہ، جو اس جنگ بندی میں مرکزی ثالث تھا، پر اب اس کی پائیداری کو یقینی بنانے کی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ یہ صرف ایران اور اسرائیل سے ہی نہیں، بلکہ دیگر علاقائی و عالمی قوتوں سے بھی مستقل سفارتی رابطوں کا متقاضی ہے۔ بین الاقوامی اجلاس، خفیہ رابطے، اور اعتماد سازی کے اقدامات اس جنگ بندی کو عارضی وقفے سے مستقل امن کی راہ میں بدل سکتے ہیں۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان یہ جنگ بندی صرف میزائلوں اور فضائی حملوں کی بندش نہیں، بلکہ ایک نادر اور قیمتی موقع ہے۔ اس سے نہ صرف شہریوں کو وقتی سکون ملا ہے بلکہ اقتصادی استحکام بحال ہوا ہے اور امن کی کوششوں کے لیے ایک چھوٹی مگر اہم کھڑکی کھلی ہے۔ یہ لمحہ مستقل تبدیلی کا سبب بنے گا یا تاریخ کا ایک اور ضائع شدہ موقع، اس کا انحصار خطے اور دنیا کے رہنماؤں کے آئندہ اقدامات پر ہے۔ فی الحال، بندوقیں خاموش ہو گئی ہیں، اور ایک طویل عرصے سے جنگوں کے شکار خطے میں، یہی ایک بڑی بات ہے جسے تسلیم کرنا اور آگے بڑھانا ضروری ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International