Today ePaper
Rahbar e Kisan International

صحافت، مفادات کی قید میں

Articles , Snippets , / Wednesday, June 25th, 2025

rki.news

عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدھو میاں نے آج کا تازہ اخبار پڑھتے ہوئے کن انکھیوں سے ہماری طرف دیکھا، اور پھر کہنے لگے ایک بات تو بتائیں۔ ہم نے کہا آپ کا ایک سوال پوچھنا بعد میں ایک پورا قصہ بن جاتا ہے، لیکن خیر پوچھئے کیا پوچھنا چاہتے ہیں۔ بدھو میاں اخبار ایک طرف رکھتے ہوئے نہایت فلسفیانہ انداز میں پوچھنے لگے، یہ بتائیں آخر ہماری قوم کے بزعم خود بنے یہ بزر جمہر کتنے ذہین ہیں جو کرکٹ میچ دیکھتے ہوئے کرکٹ کے ماہر بن جاتے ہیں ، بیماریوں کا سنتے ہی ڈاکٹر کا روپ دھار لیتے ہیں ، کسی بے روزگار کو مشورہ دیتے ہوئے انفلوئنسر کا چولا پہن لیتے ہیں ، بجٹ پر بحث ہو رہی ہو تو اپنے اوپر ماہر معاشیات والا پیرین زیب تن کر لیتے ہیں، غرض ہم نےجیسا دیس ویسا بھیس والی مثال تو سنی تھی، مگر جیسا ماحول ویسی شخصیت تو ہمارے معاشرے میں ان بزر جمہر بنے ارسطووں کی ہی نظر آتی ہے، اور تو ان بزر جمہر نما ارسطووں میں شامل کئی صحافی بھی آزادانہ رائے کے بجائے مقبول عوامی رائے پر مبنی کالم لکھ کر واہ واہ سمیٹنے میں لگے نظر آتے ہیں، جبکہ ان کا کام واہ واہ کے بل بوتے پر پیسہ چھاپنے کے بجائے زیادہ سے زیادہ اصل حقائق سے عوام کو آگاہ کرنا ہوتا ہے، آخر یہ سب حضرات ایماندارانہ صحافت کا حلف لے کر بھی منافقانہ صحافت کیسے کر لیتے ہیں۔ ہم نے بدھو میاں کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا کہ جناب اس ساری تمہید میں آخر وہ سوال کہاں ہے جو جناب پوچھنا چاہتے تھے، یہ سب بیان کردہ تو وہ حقیقت ہےجو ہم سب پر پوری طرح عیاں ہے ، مگر کیا کریں بقول امیر مینائی ~ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے، تو ہمارے ان نام نہاد قلم۔ کے مجاہدوں کے نزدیک بھی تمام جہاں کا غم پہلے ہے اور ملک کی سلامتی کا غم بعد میں آتا ہے ۔ یہ حضرات عوامی جذبات پر حقیقت کا پانی ڈالنے کے بجائے منافقت کا تیل ڈالنے کے ماہر ہیں۔ لگتا ہے کہ یہ کسی احساس کمتری کا شکار ہیں۔ ملک کی ترقی ان سے ہضم نہیں ہو پاتی، جبکہ اتنے سالوں بعد عالمی سطح پر جیسے بھی حالات رہے ان تمام مشکلات سے دامن بچا کر خود کو مضبوط کرنے کی کوششوں میں کامیابی ان جیسے لنڈے کے ارسطووں سے ہضم نہیں ہو پا رہی ہے ۔ ان میں شامل کچھ مبصر جو حالیہ انڈیا پاکستان مدبھیڑ سے پہلے لکھ لکھ کر اخبار کے صفحات کالے کر رہے تھے کہ پاکستان انڈیا کا وار سہہ نہیں پائے گا، پاکستان کے کرارے جواب پر فوراً پارٹی بدل کر کہنے لگے، ہم یہی تو کہہ رہے تھے کہ پاکستان کی طرف سے کرارا جواب دیا جائے۔ پاکستان کو عالمی دنیا کا بغل بچہ کہہ کہہ کر اپنے ہی ملک کا امیج خراب کرنے والے فوراً لکھنے لگے کہ اب پاکستان کو دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑا کر خود کو اُن ممالک کے مقابل آ جانا چاہیے جو اس وقت سپر پاور کا تمغہ سینے پر سجائے اتراتے پھر رہے ہیں۔ اب اُن سے لڑنے کی پلاننگ شائد انہوں نے ڈیسک پر بیٹھ کر شیخ چلی کی طرح خیالی گھوڑے دوڑا کر کر رکھی ہو گی۔ خود ایڈیٹر کے ایماء پر اپنے کالم کے خیالات اور جذبات بدل کر ڈھیر ہونے والے یہ حضرات، ملک کے پالیسی ساز اداروں سے زیادہ خود کو ذہین سمجھنے لگتے ہیں۔ جب دل میں آتا ہے لکھ دیتے ہیں کہ پاکستان عالمی دنیا کا چھوٹو بنا ہوا ہے، جبکہ یہی حضرات امریکہ کے حالیہ ایران پر کئے گئے حملے میں ان ملکوں کے نام تک ضبط تحریر نہیں کر سکتے، جن کو امریکہ نے چھوٹو بنا کر کہا ہے کہ ہمارے جہاز اڑتے دیکھ کر آنکھیں بند کر لینا اور واپس آنے پر ٹاکی شاکی مار کر کچھ پیسے لے لینا۔ اِن کے تو شاید روس کو بھی چھوٹو لکھتے ہوئے ہاتھ کانپنے لگ جائیں، کہ ایران کے اوپر ہوئے حملے پر اب تک کوئی قراداد لے کر عالمی سلامتی کونسل کے دروازے پر ان کا بندہ تک کھڑا نظر نہیں آ رہا ہے۔ شاید یہ بات ان ارسطووں کو نہیں پتہ کہ دنیا میں اس وقت سب سے بڑی جنگ مفادات کی جنگ ہے، اور تمام ممالک اپنے ملک کے استحکام کو مدنظر رکھ کر ہی فیصلے کرتے ہیں۔ چین کی بیان بازی کی حد تک پورے معاملے میں شمولیت سے یہ بات سمجھ آ جانی چاہئے کہ پورے معاملے کا ادراک رکھتے ہوئے بنائی گئی حکمتِ عملی ہی شرط اولین ہوتی ہے ، اور اس کے لئے اپنی عوام کو آگ کے شعلوں میں دھکیل دینا حکمت عملی سے زیادہ بے وقوفی ہی قرار دی جا سکتی ہے۔ کسی غلط فیصلے کے نتائج پر یہ مشورہ دینے والے ارسطو خود باہر بھاگ کر، اور فوراً پارٹی بدل کر کہیں گے ارے ہم نے تو مشورہ دیا تھا کیا حکومت اتنی نااہل ہے کہ یہ بھی نہ سمجھ سکے کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط۔ بدھو میاں کہنے لگے یہی تو سوال تھا کہ صحافت کی ایسی کالی بھیڑوں کی شناخت ہونے کے باوجود اِن کو اتنی اہمیت کیوں حاصل رہتی ہے؟ ہم نے کہا ان کے پاس چاپلوسی کی چابی، اور نظریہ ضرورت کے تحت گرگٹ کی طرح رنگ بدل جانے کی خاصیت جو ہوتی ہے۔ اپنے ملکی مفاد کو مدنظر رکھے بغیر خود کو غیر جانبدار ثابت کرنے کے لئے یہ ملکی مفاد تک سے کھیل جاتے ہیں، لیکن جب ان کے اپنے مفادات پر اثر پڑ رہا ہوتا ہے، تب ان سے کوئی کچھ بھی پوچھے یہ بالکل خاموش تماشائی بن جاتے ہیں۔ کبھی یہ اپنے اداروں میں ایک عام ورکر سے ہوئے ناروا سلوک پر نہیں بولتے۔ ان کے قلم کی سیاہی ان مظلوموں کے لئے لکھتے ہوئے خشک پڑ جاتی ہے، لیکن ملک کی مخالفت میں لکھتے ہوئے کئی کئی صفحات کالے کر ڈالتے ہیں ۔ بدھو میاں کہنے لگے اگر ہم دنیا کے تمام ممالک پر نظر ڈالیں تو ہمیں ہر ملک اپنے اپنے مفاد سامنے رکھ کر چھوٹو بنتا نظر آتا رہا ہے ، یہاں تک کے امریکہ بھی کئی بار اپنے سینے پر اسرائیلی چھوٹو کا ٹیگ لگا کر خوشی خوشی عالمی دنیا میں گھومتا رہا ہے۔ ہم نے بدھو میاں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، دراصل بات یہ ہے کہ اگر آپ کو اللہ نے قلم کی طاقت سے نوازا ہے تو ساتھ ہی یہ ادراک بھی عطا کیا ہے کہ کون سی بات کب، کیسے ،کہاں لکھی اور کہی جانی چاہیے۔ اگر آپ اپنے وطن سے ہی مخلص نہیں ہیں تو پھر آپ اس وطن کی طرف سے دی گئی عزت و احترام کے بھی مستحق نہیں ہیں۔ بدھو میاں نے دور خلاء میں گھورتے ہوئے کہا ہمارا تو ان قلم فروش صحافیوں سے ایک ہی سوال ہے کہ سوچئے گا ضرور کہ آپ سے روزِ جزا اس بات کا بھی حساب لیا جائے گا کہ آپ آگ لگانے والے تھے یا وطن اور مذہب پر آئی ہر آنچ کو ادراک کے قلم سے بجھانے والے تھے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International