Today ePaper
Rahbar e Kisan International

لمبے ناخن: فیشن، مذہب اور سائنس ایک تنقیدی جائزہ

Articles , Snippets , / Friday, June 27th, 2025

rki.news

تحریر: ڈاکٹر منور احمد کنڈے۔ ٹیلفورڈ۔ انگلینڈ۔
۔۔۔۔۔۔

عورت کی فطرت میں زینت پسندی ایک بنیادی جزو کے طور پر شامل ہے۔ زمانہ قدیم سے لے کر آج تک عورت نے اپنے حسن کو نکھارنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ ناخنوں کو بڑھا کر اور انہیں رنگین پالش سے آراستہ کرنا بھی ہے، جو آجکل نہ صرف فیشن کی علامت سمجھا جاتا ہے بلکہ خوبصورتی کے جدید معیارات میں اسے اعلیٰ ذوق کی نشانی بھی مانا جاتا ہے۔ مگر اس ظاہری دلکشی کے پس پردہ جو سائنسی، طبی اور مذہبی حقائق پنہاں ہیں، وہ قابل غور ہیں، بلکہ قابل تشویش بھی۔
لمبے ناخن جسم کا وہ حصہ ہیں جو براہ راست روزمرہ کے تمام کاموں میں شامل ہوتا ہے۔ ہاتھوں کے ذریعے انسان اپنے ماحول سے مسلسل رابطے میں رہتا ہے، کھانے پینے، بچوں کی نگہداشت، بیت الخلا کے استعمال، کپڑے دھونے، جھاڑو دینے، حتیٰ کہ خود اپنی جلد اور بالوں کو چھونے تک، ہر جگہ ہاتھ اور ناخن شریکِ کار ہوتے ہیں۔ ایسے میں لمبے ناخن نہ صرف جسمانی صفائی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں بلکہ صحت عامہ کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ بن سکتے ہیں۔
سائنس اس معاملے میں خاصی دو ٹوک رائے رکھتی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت (WHO) اور دیگر طبی تحقیقی ادارے یہ بات تسلیم کر چکے ہیں کہ لمبے ناخنوں کے نیچے جراثیم، بیکٹیریا، فنگس اور وائرس نہ صرف جلدی پناہ لے لیتے ہیں بلکہ عام صابن اور پانی سے دھونے کے باوجود بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوتے۔ Journal of Clinical Microbiology میں شائع شدہ تحقیق کے مطابق نرسوں اور ڈاکٹروں کے لمبے ناخن مریضوں میں انفیکشن کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ پائے گئے۔ خصوصاً ای کولی (E.coli)، سالمونیلا (Salmonella) اور اسٹاف ایوریس (Staphylococcus aureus) جیسے خطرناک جراثیم ناخنوں کے نیچے محفوظ رہتے ہیں اور خوراک یا بچوں کے دودھ میں منتقل ہو کر مہلک بیماریاں پیدا کرتے ہیں۔
ماؤں کا بچوں کے ساتھ قریبی جسمانی رابطہ ہوتا ہے۔ ان کے ہاتھ بچوں کی ناپیاں تبدیل کرتے ہیں، دودھ بناتے ہیں، بچوں کے منہ اور آنکھوں کو چھوتے ہیں۔ اگر ان ہاتھوں میں لمبے ناخن موجود ہوں تو ناخنوں کے نیچے چھپے جراثیم براہ راست معصوم بچوں کے جسم میں داخل ہو سکتے ہیں، جو اُن کی ناپختہ قوتِ مدافعت پر کاری ضرب بن کر اُترتے ہیں۔ صفائی چاہے جتنی بھی کی جائے، ناخنوں کے نیچے موجود باریک دراڑیں اور کھال کے ساتھ جڑی چکنی تہیں بیکٹیریا کے محفوظ مسکن بنی رہتی ہیں۔
یہی مسئلہ ہر مذہب کے تناظر میں بھی سامنے آتا ہے۔ اسلام نے ظاہری و باطنی طہارت پر خصوصی زور دیا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ناخن کاٹنے کو سنت قرار دیا، اور فرمایا کہ ناخن نہ بڑھائے جائیں (صحیح مسلم، کتاب الطہارت)۔ طہارتِ بدن اور نظافتِ نفس کو اسلامی تہذیب میں روحانی بلندی کے درجے پر فائز کیا گیا ہے۔ ناخنوں میں پھنسا میل اور گندگی وضو اور غسل کے مکمل ہونے میں رکاوٹ بنتے ہیں، یوں نہ صرف جسمانی صفائی متاثر ہوتی ہے بلکہ عبادات کی قبولیت بھی مشتبہ ہو جاتی ہے۔ نیز، نماز جیسے مقدس عمل میں شرکت سے قبل طہارتِ کاملہ لازمی ہے، اور لمبے ناخن اس میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
مختلف مذاہب میں صفائی کو روحانی پاکیزگی سے جوڑا گیا ہے۔ ہندو دھرم میں بھی ہاتھوں کی صفائی، خاص کر عبادات سے قبل، نہایت اہم مانی گئی ہے۔ بدھ ازم میں بھی جسمانی صفائی کو ذہنی سکون اور مراقبہ کی تیاری کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے۔ عیسائیت میں حضرت موسٰی علیہ السلام کی شریعت میں بعض صفائی کے قوانین سختی سے لاگو کیے گئے، جن میں جسم کے ان حصوں کو صاف رکھنے کی ہدایت بھی شامل تھی جو غذا کی تیاری سے وابستہ ہوتے ہیں۔ ان تمام مذاہب میں جسمانی صفائی کو اخلاقی اور روحانی بلندی کے ساتھ جوڑا گیا، جبکہ فیشن پرستی کو نفس پرستی کے مترادف گردانا گیا۔
مزید برآں، موجودہ دور میں COVID-19 جیسی عالمی وبا نے ہمیں یہ سکھایا کہ ہاتھوں کی صفائی، بالخصوص ناخنوں کی مکمل طہارت، صحت کی بقا کے لیے کتنی ضروری ہے۔ امریکی Centers for Disease Control and Prevention (CDC) کی جانب سے یہ واضح ہدایات جاری کی گئیں کہ لمبے ناخن وبائی جراثیم کے لیے پناہ گاہ بن سکتے ہیں، اور ہاتھ دھونے کے باوجود مکمل صفائی ممکن نہیں رہتی۔
یہ سوال اب ہر باشعور فرد کے سامنے ہے کہ کیا ظاہری زیبائش اندرونی بیماریوں کا دروازہ کھولنے کے لائق ہے؟ کیا ایک وقتی فیشن کی خاطر دائمی صحت کو داؤ پر لگایا جا سکتا ہے؟ کیا مذہب اور علمِ صحت کے واضح اصولوں کے باوجود بھی ہمیں صرف نظر کرنا زیب دیتا ہے؟ ادب، علم اور دین، تینوں کی مشترکہ آواز یہی ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے، اور جسم کی وہ آرائش جو طہارت کے اصولوں کو پامال کرے، نہ صرف غیر مفید بلکہ مضر صحت ہے۔
زندگی کی اصل خوبصورتی صحت اور سادگی میں ہے۔ اگر عورت اپنی فطری خوبصورتی کو سلامت رکھنا چاہتی ہے تو وہی زینت اختیار کرے جو پاکیزگی سے ہم آہنگ ہو۔ لمبے ناخن اگرچہ وقتی طور پر دیدہ زیب لگتے ہیں، مگر ان کے پیچھے چھپے خطرات گہرے اور دیرپا ہیں۔ عقل، علم اور دین ہمیں یہی سکھاتے ہیں کہ اعتدال اور صفائی ہی حسن کا اصل معیار ہے، اور یہی وہ پیغام ہے جو ہمیں فیشن کے پردے میں چھپی بے اعتدالی سے بچا سکتا ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International