جب تپش رُوح کو جلاتی ہے
سائباں بن کے ماں بچاتی ہے
کام لیتی نہیں خیانت سے
دودھ پورا ہمیں پلاتی ہے
پیٹ بھرتی ہے سارے بچوں کا
خود مگر بھوک کو چھپاتی ہے
اِک یہی اِمتیاز ہے ماں کا
گُر ہمیں پیار کے سکھاتی ہے
اُس کو کیا ڈر ہے گھپ اَندھیرے کا
خوف میں حوصلہ بڑھاتی ہے
دخل مت دُو ہماری باتوں میں
سارا جھگڑا ہمارا ذاتی ہے
گھر کی تقسیم ہو گئی لیکن
مسئلہ صرف ماں کا باقی ہے
سچ کہوں تو سماج میں عارفؔ
مامتا ہی وفا نبھاتی ہے
عبدالحق عارف ( ٹوبہ ٹیک سنگھ )
Leave a Reply