rki.news
تشنہ ساحل سے بھی دریا نَمی کیوں چاہتا ہے
خاک سے بندہ بھلا زندگی کیوں چاہتا ہے
کر دو سیراب زمانے کو لہو سے اپنے
کربلا آج بھی اصغر علی کیوں چاہتا ہے
دشت و صحرا کو بھی سجدوں سے سجا دو لیکن
عشق میں قیس سی وہ بندگی کیوں چاہتا ہے
بھیڑ لگ جائیگی اک روز جنازے میں مگر
زندہ رہنے کو وہ اک آدمی کیوں چاہتا ہے
جس خدا کو لگے ہو آج منانے میں تم
وہ خدا بندگی میں عاجزی کیوں چاہتا ہے
کیا کہیں حال شغف آج زمانے کا تمہیں
زخم دیتا ہے جو چارہ گری کیوں چاہتا ہے
پروین شغف
Leave a Reply