Today ePaper
Rahbar e Kisan International

برکس بمقابلہ امریکہ

Articles , Snippets , / Tuesday, July 8th, 2025

rki.news

تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com

برکس ممالک نے آئی ایم ایف کےمخصوص نظام پر سوال اٹھا دیا ہے۔برکس نے مانیٹری فنڈ میں ناگزیر اصلاحات کی بات کی ہے۔برازیل میں ہونے والی ترقی پذیر ممالک برکس سمٹ کا مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا گیا ہےجس میں عالمی تجارت،مالیاتی اصلاحات اور مشرق وسطی کی صورتحال پر اہم موقف اپنایا گیا ہے۔عالمی تجارت میں امریکی اثرورسوخ بہت بڑھ چکا ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےاقتدارحاصل کرتے ہی ٹیرف میں غیر معمولی اضافے کا اعلان کیا تھا،جس کی وجہ سے پوری دنیا تشویش میں بڑھ گئی تھی۔ٹرمپ کےٹیرف اعلانات کی وجہ سے عالمی معیشت ہل کر رہ گئی۔برکس امریکہ کے خلاف ایک اہم قوت ثابت ہو رہا ہےاور اسی خطرے کے پیش نظربرکس کودھمکایا بھی جا رہا ہے۔برازیل میں ہونےوالےبرکس کےاجلاس میں برکس گروپ کے وزرائے خزانہ نےآئی ایم ایف(بین الاقوامی مالیاتی فنڈ)میں اصلاحات کا مطالبہ کیا ہےاور کہا کہ آئی ایم ایف کا موجودہ کوٹہ اور ووٹنگ نظام عالمی اقتصادی حقائق کی عکاسی نہیں کرتا۔برکس مطالبے میں ووٹنگ کےحقوق کی ایک نئی تقسیم اور فنڈ کی قیادت کے لیےیورپی انتظامیہ ہونے کی روایت کا خاتمہ بھی شامل تھا،اس گروپ کے وزرائے خزانہ نےپہلی بار مشترکہ بیان میں موجودہ اصلاحات پر اتفاق کیا۔اس سلسلہ میں دسمبر میں آنے والی آئی ایم ایف کےجائزے کے اجلاس میں اس مشترکہ تجویز پر بات کی جائے گی۔برکس رہنماؤں نے ایران پر امریکی و اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت بھی کی اور یہ بھی کہا کہ غزہ کو ریاست فلسطین کا حصہ تسلیم کرتے ہیں۔اعلامیہ میں امریکہ کے یکطرفہ تجارتی محصولات پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا گیا کہ امریکہ کےیک طرفہ اقدامات عالمی تجارتی اصولوں کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہیں۔برکس رہنماؤں نے مشرق وسطی کی صورتحال پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا۔
برکس کی طرف سےجاری کیا گیا اعلامیہ ایک اچھی امید دلاتا ہے۔ہو سکتا ہےکچھ عرصہ کے بعد امریکی اجارہ داری ختم ہو جائے یابہت زیادہ مضبوط نہ رہے۔امریکی مداخلت نےدنیا کےمعاشی اور اور دفاعی نظام کوشدید متاثر کیا ہوا ہے۔برکس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ مستقبل میں امریکہ یا کسی دوسری طاقت کے لیے خطرناک ثابت ہو۔اس وقت برکس اس پوزیشن پر نہیں کہ امریکہ سے ٹکر لے سکے۔برکس ممالک اتنے طاقتور نہیں کہ ایک نئے نظام کو قائم کر لیں،لیکن بنیاد رکھی جا رہی ہے۔برکس اعلامیہ میں آئی ایم ایف کےمخصوص نظام پرتنقید کی گئی ہےاوراصلاحات کی بات کی گئی۔مشرق وسطی کی صورتحال کو بھی زیر بحث لا کر امن کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو کہ قابل تحسین ہے۔مشرق وسطی میں شدید بد امنی نےخطے کی صورتحال انتہائی خراب کر دی ہے۔امریکہ اور اسرائیل کےایران پر حملوں کو بھی غلط کہا گیا اور ان حملوں کی مذمت بھی کی گئی۔برکس کا نیا معاشی نظام ترقی پذیر ممالک کے لیے فائدہ مند ثابت ہو یا نہ ہو،امریکہ کے اثرورسوخ کوختم کر سکتا ہے۔برکس میں چین اور روس جیسے ممالک بھی شامل ہیں،جن کو دفاعی اور معاشی لحاظ سے مضبوط کہا جا سکتا ہے لیکن امریکہ کا مقابلہ کرنا ان کے لیے بھی آسان نہیں۔برکس میں شامل بہت سے ممالک معاشی لحاظ سے بہت کمزور ہیں اور دفاعی لحاظ سے بھی انتہائی کمزور ہیں،اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ کا مقابلہ کرنا بہت ہی مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔برکس کرنسی بھی ڈالر کے مقابلے میں مارکیٹ میں لائی جا سکتی ہے،اگراس کرنسی نے مارکیٹ میں جگہ بنا لی تو ڈالر آسانی سےآؤٹ ہو جائے گا۔ڈالر کےآؤٹ ہونے کا مطلب ہوگا کہ امریکہ اپنے اثرورسوخ سے ہاتھ دھو بیٹھے۔برکس میں شامل چندایک کےسوا،تمام ممالک امریکی ناراضگی برداشت نہیں کر سکتے۔بھارت یا متحدہ عرب امارات جیسے ممالک امریکی ناراضگی برداشت نہیں کر سکیں گے۔برکس میں بہت سےایسےممالک بھی شامل ہیں جو تجارت کا رخ تبدیل نہیں کر سکتے۔بہرحال کوششیں جاری ہیں،ہو سکتا ہے مستقبل بہتر ہو۔
برکس سے امریکہ بھی نالاں ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےبیان دیا ہے کہ امریکہ مخالف پالیسیوں کے ساتھ خود کو منسلک کرنے والے کسی بھی ملک پر امریکہ کی جانب سے 10 فیصد اضافی ٹیرف عائد کیا جائے گا۔برکس کی سرگرمیاں امریکی مفادات کے خلاف ہیں اور ٹرمپ مخالفین کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔اب ٹرمپ کی دھمکیاں کئی ممالک کو برکس سے نکلنے پر مجبور کر دیں گی۔اگرکوئی ملک برکس کو نہ چھوڑےتو وہ ملک امریکی مفادات کو محفوظ بنانے کی کوشش کرے گا۔امریکی دھمکیاں برکس ممالک میں اختلافات بھی پیدا کر سکتی ہیں۔اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ برکس کو اگر مضبوط بنا لیا جائےتو امریکہ سمیت کئی طاقتیں اپنی مضبوطی کو کھو دیں گی۔چین،روس اور دیگر طاقتورممالک برکس کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہےہیں۔اگر تمام ممالک نہ سہی،چند مضبوط ممالک اپنا اتحاد بنا لیں تو پھر بھی امریکہ پریشانی میں مبتلا ہو سکتا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں بہت بڑی سپر پاورزٹوٹ کر بکھر گئی اور اب بھی بکھر سکتی ہیں۔
برکس کو تشکیل ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا بلکہ چند سال گزرے ہیں۔2009 میں برکس کا پہلا اجلاس ہوا اور اس میں برازیل،روس،بھارت اور چین شامل تھے،لیکن اب ممالک کی تعداد بڑھ گئی ہے۔برکس ممالک دنیا کی معیشت کا بہت بڑا حصہ سنبھال چکے ہیں،اگریہ ممالک متحد ہو گئےتو بہت بڑا انقلاب آسکتا ہے۔اصل مسئلہ یہ بھی ہے کہ بہت سے ممالک امریکی طاقت سےخوفزدہ ہیں اور یہ خوف ان کو آگے بڑھنے سے روک رہا ہے۔برکس ممالک نیٹو اتحاد جیسا عسکری اتحادبھی بنا سکتے ہیں اور یہ اتحاد بہت بڑی تبدیلی لا سکتا ہے۔بہرحال اس وقت تو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ امریکہ کے لیے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔برکس کا اتحاد دنیا میں ایک انقلابی تبدیلی لا سکتا ہے،مگر شرط یہ ہے کہ نیک نیتی سے کام کیا جائےاوراستقامت کا مظاہرہ کیا جائے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International