Today ePaper
Rahbar e Kisan International

نثری اور آزاد نظم: شاعری ہے یا نہیں؟ ایک فکری مکالمہ

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Tuesday, July 8th, 2025

rki.news

تحریر: ڈاکٹر منور احمد کنڈے۔ ٹیلفورڈ۔ انگینڈ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آزاد نظم اور نثری نظم کے حوالے سے اردو ادب میں ہمیشہ ایک خاص قسم کی کشمکش رہی ہے۔ بہت سے روایتی شعرا انہیں شاعری کے دائرے سے باہر سمجھتے رہے ہیں، اوربہتسےاب بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ جبکہ جدید شعرا نے انہیں اظہار کے ایک طاقتور وسیلے کے طور پر اپنایا۔ اس بحث کی جڑیں دراصل شاعری کی تعریف اور اس کے معیار میں پوشیدہ ہیں۔ جب ہم شاعری کو صرف قافیہ، ردیف اور بحر تک محدود سمجھتے ہیں، تو آزاد اور نثری نظم کو خارج کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر شاعری کو جذبے کی شدت، تخیل کی بلندی اور اثر پذیری کی بنیاد پر پرکھا جائے، تو آزاد اور نثری نظم کا انکار کرنا ممکن نہیں رہتا۔
میں نے خود بھی برسوں تک آزاد اور نثری نظم کو شاعری کا درجہ نہیں دیا تھا۔ میرے نزدیک شاعری صرف وہی تھی جس میں بحر، ردیف، قافیہ اور ترتیب ہو۔ اسی لیے میں نے فقط پابند نظمیں ہی لکھیں، انہی کو شاعری سمجھا اور انہی کے دائرے میں قلم چلایا۔ مگر دھیرے دھیرے جب میں نے جدید نظموں کا مطالعہ کیا، ان کی معنوی گہرائی، علامتی قوت، اور اندرونی آہنگ پر غور کیا تو مجھے احساس ہوا کہ یہ بھی تو شاعری ہے، بلکہ وہ شاعری جو رسمی سہاروں کے بغیر اپنی تخلیقی بلندی کا ثبوت دے رہی ہے۔ یہ میری شعری سوچ میں ایک اہم موڑ تھا، ایک ایسی تبدیلی تھی جس نے مجھے فن کی نئی دنیا سے آشنا کیا۔
آزاد نظم وہ صنف ہے جو بحر کی روایتی پابندیوں سے آزاد ہوتی ہے مگر اس میں ایک داخلی موسیقیت، خیال کی ترتیب، اور شعری فضا برقرار رہتی ہے۔ اس کی مثال ن م راشد کی مشہور نظم
“زندگی سے ڈرتے ہو”
ہے، جس میں وہ مخاطب کو جھنجھوڑتے ہیں، مگر قافیہ یا بحر کی گرفت سے آزاد ہو کر۔ ان کی نظم کی چند سطور پرغور فرمائیے:

زندگی سے ڈرتے ہو؟
زندگی تو تم بھی ہو، زندگی تو ہم بھی ہیں
زندگی سے ڈرتے ہو؟

یہ سطور بحر سے آزاد ضرور ہیں، مگر ان میں وہ تاثر، وہ چبھتا ہوا سوال، اور وہ طنز ہے جو قاری کے دل میں اتر جاتا ہے۔ اس طرح کی نظم صرف لکھ دینا آسان ہے، مگر اس میں وہ روح پھونکنا کہ پڑھنے والا چونک جائے، یہ ایک بہت بڑا فن ہے۔ ن م راشد کے علاوہ مجید امجد نے بھی آزاد نظم کو وقار عطا کیا۔ ان کی نظم “کباڑی” کو دیکھیے، جس میں ایک سادہ سا منظر انسان کی بے قدری اور تاریخ کے زوال کی علامت بن جاتا ہے۔
نثری نظم اس سے بھی ایک قدم آگے ہے۔ اس میں شاعر نثر میں خیالات بیان کرتا ہے، مگر اس انداز سے کہ اس کی زبان شاعری بن جاتی ہے۔ یہ صنف بظاہر نثر دکھائی دیتی ہے، مگر اس کے اندر جذبات، علامتیں، اور گہری معنویت کا جو رنگ ہوتا ہے، وہ اسے نثر سے بلند کر دیتا ہے۔ مظفر علی سید کی نثری نظموں میں ہمیں وہ داخلی کرب اور انسانی تنہائی کے رنگ نظر آتے ہیں جو روایتی غزل یا نظم میں شاید ممکن نہ ہوں۔
یہ بات درست ہے کہ آزاد اور نثری نظم لکھنے کے لیے بحر اور عروض کی معلومات کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی جتنی کہ کلاسیکی غزل یا پابند نظم کے لیے درکار ہے۔ اس لیے کچھ لوگ اسے “آسان شاعری” سمجھتے ہیں۔ مگر آسانی کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس میں گہرائی، وسعت، یا فن کی بلندی ممکن نہیں۔ اصل مشکل تو یہ ہے کہ بغیر عروض کا سہارا لئے، محض خیال اور جذبے کی قوت سے اثر پیدا کیا جائے۔ یہی وہ چیلنج ہے جو نثری نظم کو واقعی باوقار اور قابلِ قدر بناتا ہے۔
شاعری دراصل ایک باطنی واردات کا اظہار ہے۔ اس کے لیے بحر و قافیہ ایک ذریعہ ہو سکتے ہیں، مگر لازمی نہیں۔ اگر کسی شاعر کا خیال، تجربہ، اور زبان اتنی مؤثر ہو کہ وہ دل میں اتر جائے، تو اسے شاعری ہی کہا جائے گا۔ اگر ن م راشد، مجید امجد، مظفر علی سید، اور زاہد ڈار کی نثری نظمیں قاری کو جھنجھوڑ دیتی ہیں، تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ شاعری ہے، اور وہ بھی اعلیٰ درجے کی۔
ادب کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر عہد میں نئے رجحانات کو پہلے رد کیا گیا، پھر وقت نے انہیں قبول کیا۔ آج ن م راشد یا ٹی ایس ایلیٹ کو کون شاعری کے دائرے سے باہر رکھ سکتا ہے؟ اگر ہم صرف قافیہ اور بحر کو معیار بنائیں، تو پھر علامہ اقبال کی بعض آزاد نظمیں بھی سوال کے کٹہرے میں آ جاتی ہیں، حالانکہ ان کی شاعری میں فکری بلندی اور روحانی گہرائی مسلم ہے۔
نتیجہ یہی ہے کہ شاعری کی اصل روح اس کے اندرونی آہنگ، معنویت، اور اثر پذیری میں ہے، نہ کہ صرف ساخت میں۔ آزاد اور نثری نظم اگرچہ بظاہر آسان لگتی ہے، مگر اس کے لیے جو تخلیقی صلاحیت درکار ہے، وہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ جو لوگ اسے آسان شاعری کہہ کر رد کرتے ہیں، وہ دراصل اس کے مطالبات اور باریکیوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ لہٰذا آزاد نظم اور نثری نظم کو نہ صرف شاعری تسلیم کیا جانا چاہیے بلکہ اسے اردو ادب کے ارتقائی سفر کا ایک اہم سنگِ میل بھی مانا جانا چاہیے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International