Today ePaper
Rahbar e Kisan International

پاکستان سمیت دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلی سے تباہ کن اثرات

Articles , Snippets , / Tuesday, July 8th, 2025

rki.news

(تحریر احسن انصاری)

ماحولیاتی تبدیلی اب دنیا کا ایک زندہ حقیقت بن چکی ہے۔ زمین کا درجہ حرارت تیزی سے بڑھ رہا ہے، موسموں کی شدت میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے، اور دنیا بھر میں قدرتی آفات معمول کا حصہ بنتی جا رہی ہیں۔ یہ تبدیلی صرف ماحول کو نہیں بلکہ انسانی زندگی، معیشت، صحت، زراعت اور وسائل کو بھی بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک جہاں وسائل محدود ہیں، سب سے زیادہ اس بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔

زمین کے درجہ حرارت میں اب تک تقریباً 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ہو چکا ہے، جو صنعتی انقلاب کے بعد سے جاری ہے۔ اس کے نتیجے میں گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، سمندری سطح بلند ہو رہی ہے، اور دنیا بھر میں سیلاب، ہیٹ ویوز اور طوفانوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ کئی جزیرے اور ساحلی علاقے سمندر میں ڈوبنے کے قریب ہیں جبکہ جنگلات میں لگنے والی آگ نے لاکھوں جانوروں کی زندگی چھین لی ہے۔

پاکستان میں 2022 کا سیلاب ایک ایسا سانحہ تھا جس نے دنیا بھر کو چونکا دیا۔ ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب آ گیا، 3 کروڑ سے زائد لوگ متاثر ہوئے، لاکھوں بے گھر ہوئے، فصلیں تباہ ہو گئیں، اور معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا۔ کراچی، لاہور، راولپنڈی، اور پشاور جیسے شہروں میں معمول کی زندگی درہم برہم ہو گئی۔ 2019 میں ریکارڈ کی گئی گرمی، جو 53.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچی، ہزاروں اموات کا باعث بنی، جن میں زیادہ تر مزدور طبقہ شامل تھا۔

زرعی معیشت بھی اس تبدیلی کی زد میں ہے۔ پاکستان کی معیشت کا ایک بڑا حصہ زراعت پر منحصر ہے، مگر شدید گرمی، پانی کی کمی، اور بے وقت بارشوں نے فصلوں کی تباہی کو معمول بنا دیا ہے۔ زیرزمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے جا چکی ہے، اور بھارت کی جانب سے پانی روکنے کی کوششیں صورتحال کو مزید خراب کر رہی ہیں۔ سندھ اور جنوبی پنجاب میں زرخیز زمینیں سیم و تھور کی وجہ سے بنجر ہو رہی ہیں۔

سیلاب اور گرمی کی لہر کے ساتھ ساتھ صحت کے مسائل بھی بڑھے ہیں۔ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں جیسے ملیریا، ہیضہ، اور ڈائریا تیزی سے پھیلتی جا رہی ہیں۔ دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات کی کمی نے ان بیماریوں کو مزید مہلک بنا دیا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے نقل مکانی کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔ ہزاروں خاندان اپنی زمینیں چھوڑ کر عارضی پناہ گاہوں میں رہنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

ان مسائل کی جڑ میں عالمی عوامل جیسے فوسل فیول کا بڑھتا ہوا استعمال شامل ہے۔ دنیا بھر میں کوئلہ، گیس اور تیل پر انحصار، گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا بڑا سبب ہے۔ ہر سال تقریباً 18 ملین ایکڑ جنگلات کاٹے جاتے ہیں، جو ماحولیاتی توازن کو خراب کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان میں بھی مقامی وجوہات جیسے جنگلات کی بے دریغ کٹائی، ناقص منصوبہ بندی، اور بدعنوانی نے صورتحال کو مزید بدتر بنایا ہے۔

حال ہی میں، جولائی 2025 میں امریکہ کی ریاست ٹیکساس میں شدید بارشوں کے نتیجے میں ہولناک فلیش فلڈ آیا۔ یہ سیلاب خاص طور پر Kerr County اور Guadalupe دریا کے اطراف کے علاقوں میں تباہی کا سبب بنا۔ کچھ مقامات پر 20 انچ سے زائد بارش ریکارڈ کی گئی، جس کے بعد دریا کا پانی محض چند گھنٹوں میں خطرناک سطح تک بلند ہو گیا۔ ایک مشہور گرلز سمر کیمپ “Camp Mystic” مکمل طور پر بہہ گیا، جہاں 28 سے زائد بچے جاں بحق ہوئے اور درجنوں لاپتہ ہو گئے۔ مجموعی طور پر 104 سے زائد افراد اس سانحے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ مالی نقصان کا تخمینہ 18 سے 22 ارب ڈالر کے درمیان لگایا گیا ہے۔ اس حادثے کے بعد حکومتی نظام پر شدید سوالات اٹھے کہ کیوں فلڈ وارننگ سسٹم وقت پر کام نہیں کر پایا۔

یہ واقعہ اس بات کی تازہ مثال ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی اب صرف ایک نظریاتی خطرہ نہیں، بلکہ ایک زمینی حقیقت ہے جس سے ترقی یافتہ ممالک بھی محفوظ نہیں۔ اگر امریکہ جیسا ترقی یافتہ ملک ان اثرات سے بچ نہیں سکا تو پاکستان جیسے ممالک کے لیے خطرہ کہیں زیادہ سنگین ہے۔

ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگر دنیا نے فوری اقدامات نہ کیے تو 2100 تک عالمی درجہ حرارت 3 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کئی شہر سمندر میں ڈوب جائیں گے، زراعت مکمل طور پر متاثر ہو گی، اور قحط، بیماریاں اور نقل مکانی میں بے پناہ اضافہ ہو گا۔ پاکستان کے لیے یہ خطرہ اور بھی شدید ہے کیونکہ 2033 تک کئی علاقے رہنے کے قابل نہیں رہیں گے۔

اس بحران سے بچنے کے لیے ہمیں توانائی کے متبادل ذرائع، خاص طور پر شمسی اور ہوائی توانائی، کو فروغ دینا ہو گا۔ جنگلات کی بحالی کے لیے شجرکاری مہمات شروع کرنی ہوں گی۔ پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے جدید آبپاشی نظام اپنانے ہوں گے، اور شہری منصوبہ بندی کو بہتر بنانا ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ممالک کو ترقی پذیر ممالک کو مالی مدد فراہم کرنی چاہیے تاکہ وہ ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے مضبوط اقدامات کر سکیں۔

پاکستان میں کلائمٹ چینج اتھارٹی کا قیام خوش آئند قدم ہے لیکن اس ادارے کو بااختیار اور فعال بنانا ہوگا۔ حکومت کو بدعنوانی کا خاتمہ، شفاف منصوبہ بندی، اور ماہرین کی مشاورت سے پالیسیاں بنانا ہوں گی۔ عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، جیسے پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال، بجلی اور پانی کی بچت، اور ہر سال چند درخت لگانے جیسے آسان مگر مؤثر عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے ۔

ماحولیاتی تبدیلی کا خطرہ ہم سب کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ اگر ہم نے آج ٹھوس اقدامات نہ کیے تو کل بہت دیر ہو جائے گی۔ زمین صرف ہماری نہیں، آنے والی نسلوں کی بھی ہے — ہمیں ان کے لیے ایک محفوظ، صحت مند اور پائیدار ماحول چھوڑنا ہے۔ یہی وقت ہے کہ ہم سنجیدہ ہوں، متحد ہوں اور عملی قدم اٹھائیں۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International