rki.news
(تحریر: احسن انصاری)
پاکستان کا شمار ان ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے جو طویل عرصے سے توانائی کے بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ بجلی کی کمی، مہنگے داموں درآمدی ایندھن پر انحصار، اور موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے خطرات نے توانائی کے شعبے میں نئی سوچ، پائیدار منصوبہ بندی اور ماحول دوست حل کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔ ان ہی چیلنجز کے تناظر میں خیبرپختونخوا کے ضلع کوہستان میں دریائے سندھ پر زیرِ تعمیر ’’داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ‘‘ (Dasu Hydropower Project) نہ صرف قومی توانائی نظام میں گیم چینجر ثابت ہو گا بلکہ ملک کے معاشی، ماحولیاتی اور سماجی مستقبل پر بھی گہرے اثرات مرتب کرے گا۔
یہ منصوبہ پاکستان کے وژن 2025 اور پاور پالیسی 2013 کے تحت واپڈا کی زیرِ نگرانی شروع کیا گیا ہے۔ داسو ڈیم داسو ٹاؤن سے تقریباً سات کلومیٹر شمال میں دریائے سندھ پر تعمیر کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک ’’رن آف دی ریور‘‘ ہائیڈرو پاور منصوبہ ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس سے پانی کو قدرتی بہاؤ کے تحت استعمال کرتے ہوئے بجلی پیدا کی جائے گی، بغیر کسی بڑے ذخیرے کے۔ یہ طرزِ تعمیر ماحولیاتی طور پر موزوں اور تکنیکی لحاظ سے محفوظ ہے۔
داسو ڈیم ایک رولر کمپیکٹڈ کنکریٹ (RCC) گریویٹی ڈیم ہے، جس کی بلندی 242 میٹر اور چوڑائی تقریباً 570 میٹر ہے۔ یہ پاکستان کے اونچے ترین RCC ڈیمز میں شمار ہوگا۔ اس کے ریزروائر کی لمبائی 74 کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہوگی اور اس میں 1.41 ارب مکعب میٹر پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوگی۔ یہ ڈیم تربیلا ڈیم سے بالائی سمت میں تعمیر کیا جا رہا ہے اور اس کا بنیادی مقصد بجلی پیدا کرنا ہے۔
منصوبے کو دو مراحل میں مکمل کیا جا رہا ہے۔ پہلے مرحلے میں 2,160 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے چھ فرانسیسی ساختہ ٹربائنیں نصب کیے جا رہے ہیں، جبکہ دوسرے مرحلے میں مزید 2,160 میگاواٹ کی استعداد شامل کی جائے گی۔ یوں مکمل منصوبہ 4,320 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہو گی۔ مکمل ہونے پر یہ منصوبہ سالانہ تقریباً 21 ارب یونٹ بجلی پیدا کرے گا، جو سستی، قابلِ تجدید اور ماحول دوست ہوگی۔
یہ منصوبہ 2017 میں باقاعدہ طور پر شروع ہوا۔ اگرچہ ابتدا میں زمین کے حصول، مقامی آبادی کی مزاحمت، سیکیورٹی خدشات اور عالمی کورونا وبا جیسے مسائل کی وجہ سے منصوبے میں تاخیر ہوئی، تاہم حالیہ برسوں میں اس پر کام کی رفتار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ 2023 میں دریا کا بہاؤ موڑنے کے لیے تعمیر کی گئی سرنگیں مکمل کر لی گئیں اور ابتدائی ڈیم (Starter Dam) بھی پایۂ تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ منصوبے کا پہلا مرحلہ 2026 کے اختتام یا 2027 کے اوائل میں بجلی کی پیداوار شروع کر دے گا۔
یہ منصوبہ مقامی آبادی کے لیے بھی ایک نعمت سے کم نہیں۔ اب تک 3,700 سے زائد ملازمتیں پیدا کی جا چکی ہیں جن میں اکثریت مقامی باشندوں کی ہے۔ منصوبے کی تکمیل کے دوران یہ تعداد 8,000 تک پہنچ سکتی ہے۔ عالمی بینک اور دیگر شراکت داروں کے تعاون سے علاقے میں اسکول، صحت کے مراکز، سڑکیں، پل اور خواتین کی تعلیم و تربیت کے منصوبے بھی جاری ہیں۔ لڑکیوں کی تعلیم کے رجحان میں 70 فیصد تک اضافہ ہو گا، جو اس لازوال منصوبے کے سماجی اثرات کا مظہر ہے۔
مالی طور پر، داسو ڈیم کا ابتدائی تخمینہ 486 ارب روپے تھا، جو وقت گزرنے کے ساتھ مہنگائی، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی، بین الاقوامی تعمیراتی لاگت میں اضافے اور دیگر عوامل کے باعث بڑھ کر 1,737 ارب روپے (تقریباً 6 ارب ڈالر) تک جا پہنچا ہے۔ اس منصوبے کی مالی معاونت عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، مقامی بینکوں کے کنسورشیم، چینی کمپنیوں اور واپڈا کے اپنے وسائل سے کی جا رہی ہے۔ عالمی بینک نے جون 2024 میں اس منصوبے کے لیے مزید ایک ارب ڈالر کا قرض منظور کیا، جو کہ اس کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
داسو ڈیم صرف بجلی پیدا کرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک ماحولیاتی تحفظ کا ذریعہ بھی ہے۔ یہ منصوبہ ہر سال تقریباً 50 لاکھ ٹن کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی کرے گا جو ماحولیاتی بہتری کے لیے ایک مثبت پیش رفت ہے۔ علاوہ ازیں، یہ ڈیم تربیلا ڈیم میں داخل ہونے والی مٹی اور ریت کی مقدار کو بھی کم کرے گا، جس سے تربیلا ڈیم کی عمر میں کم از کم چالیس سال کا اضافہ متوقع ہے۔
منصوبے کو سیکیورٹی کے حوالے سے ماضی میں کئی چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔ 2024 میں ایک افسوسناک واقعے میں پانچ چینی انجینئرز اور ایک پاکستانی ورکر دہشت گرد حملے میں جاں بحق ہوئے۔ اس کے بعد سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے گئے، اور منصوبے کی تعمیراتی سرگرمیاں دوبارہ مکمل حفاظت کے ساتھ جاری ہیں۔
ایک اہم پہلو قابل ذکر ہے کہ داسو ڈیم کی تعمیر سے پاکستان کو مہنگے داموں درآمدی ایندھن پر انحصار کم کرنا پڑے گا۔ ماہرین کے مطابق اس منصوبے سے سالانہ تقریباً 1.8 ارب ڈالر کی بچت ہوگی۔ اس سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئے گی اور صنعتی پیداوار کے اخراجات میں بھی نمایاں کمی ہو گی۔
داسو ڈیم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ منصوبہ مستقبل میں بجلی کے بحران کا دیرپا حل فراہم کرے گا۔ اس سے ناصرف گھریلو صارفین کو فائدہ پہنچے گا بلکہ صنعتوں کو بھی بلا تعطل بجلی فراہم کی جا سکے گی۔ یوں پاکستان کی معاشی ترقی میں تیزی آئے گی، روزگار کے مواقع بڑھیں گے اور ملک کی توانائی خود کفالت کی جانب بڑھ سکے گی۔
داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ صرف ایک انفرا اسٹرکچر کا منصوبہ نہیں بلکہ پاکستان کی اقتصادی، ماحولیاتی اور سماجی ترقی کا ضامن ہے۔ اس منصوبے کی بروقت تکمیل، شفافیت اور تسلسل پاکستان کو توانائی کے بحران سے نکالنے میں مرکزی کردار ادا کرے گا۔ یہ منصوبہ ہماری آنے والی نسلوں کے لیے ایک قیمتی سرمایہ اور قومی معیشت و خودمختاری کے لیے گیم چینجر ثابت ہو گا۔
Leave a Reply