Today ePaper
Rahbar e Kisan International

دل کی آواز، زبانِ مومن پر ۔۔

Articles , Snippets , / Thursday, July 10th, 2025

rki.news

تحریر: ڈاکٹر منور احمد کنڈے۔ ٹیلفورڈ۔ انگلینڈ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یورپ میں رہنے والے مسلمان جب اپنی شناخت، اقدار، اور مذہبی عقائد کے ساتھ دیگر اقوام کے درمیان زندگی گزارتے ہیں، تو روز مرہ زندگی میں ہندو دوستوں، ہمکاروں اور اہلِ علم سے میل جول ایک فطری امر ہے۔ ایسے میں مسلمان اہلِ قلم کی یہ ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنے اخلاق، کردار، اور قلم کے ذریعے نہ صرف اسلام کی صحیح ترجمانی کریں بلکہ تہذیبی احترام کے ساتھ ایک ایسے مکالمے کی فضا قائم کریں جو قلوب کو جوڑے، نظریات کو روشن کرے، اور فاصلے مٹائے۔ یہ مضمون اسی فکری اور قلبی راستے کی جستجو ہے ، جہاں نہ کوئی تعصب ہے، نہ زبردستی، بلکہ صرف محبت، فہم، اور روشنی ہے۔
مسلمان اہلِ ادب اپنے ہندو دوستوں کو اسلام کی تبلیغ کس طریق سے کر سکتے ہیں، یہ سوال محض مذہبی تبلیغ کا نہیں بلکہ تہذیبی شعور، ادبی فہم اور انسانی اخلاص کا بھی ہے۔ تبلیغ کا مفہوم جب زور و زبردستی یا بحث و مباحثہ کی صورت اختیار کر لیتا ہے تو نہ صرف مقصود فوت ہو جاتا ہے بلکہ مخاطب کے دل میں ایک دیوار بھی کھڑی ہو جاتی ہے۔ خصوصاً برصغیر کی متنوع تہذیبی فضا میں جہاں صدیوں سے مختلف مذاہب، ثقافتیں، زبانیں اور روایات ایک ساتھ سانس لیتی آئی ہیں، وہاں تبلیغ کے مفہوم کو صرف مذہبی اصطلاح میں دیکھنا اس کے حسن کو محدود کرنے کے مترادف ہوگا۔
ادب کا دائرہ ہمیشہ مذہب، اخلاق، سماج اور انسانیت سے جڑا ہوا رہا ہے۔ مسلمان اہلِ قلم کی ذمہ داری محض یہ نہیں کہ وہ اپنے مذہب کا فخر بیان کریں، بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ اس فخر کو حسنِ کردار، دل آویز اسلوب، اور فکری روشنی کے ذریعے دوسروں کے دل میں اتاریں۔
؎ لبوں پہ حرفِ محبت، نگاہ میں اخلاص
یہی ہے دعوتِ دیں، نہ کوئی زور، نہ ہراس
ہندو دوستوں کو اسلام کے پیغام سے روشناس کرانے کا پہلا اور سب سے مؤثر ذریعہ “انسانی برابری” اور “روحانی کشادگی” ہے، جو اسلامی تعلیمات کا جوہر ہیں۔ اگر ایک مسلمان ادیب اپنے ہندو دوست سے مذہب کی بات کرتا ہے، تو اسے سب سے پہلے اس کی مذہبی حساسیت کا احترام کرنا ہوگا۔
؎ ہر مذہب کی بات میں کچھ نورِ حق بھی ہوتا ہے
اندھیروں سے روشنی کی جستجو عام ہوتی ہے
مسلمان اہلِ ادب کو چاہیے کہ وہ اپنے کردار، علم، سچائی، حلم، اور انسان دوستی کی روشنی ان کے دلوں میں اتاریں۔ یہ کام واعظانہ لہجے سے نہیں ہوگا، بلکہ مکالمے، ادبی تبادلے، اور فکری گفتگو سے ہوگا۔ جب ایک مسلمان شاعر یا ادیب کسی مشترکہ تہذیبی یاد کو اجاگر کرتا ہے، یا کسی روحانی تجربے کو بیان کرتا ہے، تو وہ محض اپنے مذہب کی نمائندگی نہیں کر رہا بلکہ ایک ایسے انسانی ربط کی تشکیل کر رہا ہے جس میں مذہب کی روح سمٹ آتی ہے۔
؎ قلم سے جو نکلے سچائی کا پیغام
وہی ہو تبلیغ، وہی ہو اسلام
ایسے ادیب کے ہاں گفتگو میں عاجزی ہو، رویّے میں شائستگی ہو، اور کلام میں حکمت ہو۔ وہ ہندو دوست کے ساتھ جب رامائن کے کسی کردار پر گفتگو کرے، تو اس میں اسلام کی توحیدی فکر کی جھلک بھی آ جائے، جب وہ انسانی قربانی کی بات کرے، تو حضرت ابراہیمؑ کے ذکر کے ساتھ شبرام کی کہانی کا احترام بھی رکھے۔
؎ ادب وہ آئینہ ہے جس میں حق دکھائی دے
نہ زور سے، نہ بحث سے، فقط صفائی دے
صوفیائے کرام کا طریقِ تبلیغ ہمیشہ موثر رہا ہے۔ خواجہ معین الدین چشتیؒ، حضرت نظام الدین اولیاءؒ اور دیگر بزرگوں نے کبھی کسی پر اسلام تھوپنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ اپنے اخلاق، سخاوت، عاجزی اور پیار سے دل جیتے۔
؎ زبان خاموش، کردار بولتا ہے
محبت کا دین ہر دل میں ڈولتا ہے
اسلام کے ظاہری شعائر سے پہلے اس کے باطنی حسن کو نمایاں کرنا چاہیے۔ عدل، رحم، تواضع، امانت، وفا، خدمتِ خلق، اور حسنِ سلوک ، یہ وہ جوہر ہیں جو کسی بھی دل کو متاثر کرتے ہیں، اور یہی وہ پل ہیں جن سے دو مذاہب کے درمیان فاصلے مٹتے ہیں۔
الغرض، مسلمان اہلِ ادب اگر واقعی اپنے ہندو دوستوں کو اسلام کی طرف مائل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں منبر کے بجائے محفل کو اختیار کرنا ہوگا، حکم کے بجائے محبت کو اپنانا ہوگا، اور بحث کے بجائے بصیرت سے کام لینا ہوگا۔ ایک مسلمان ادیب کی خامشی بھی اس کی تبلیغ ہو سکتی ہے اگر اس کے عمل میں اخلاص، اس کے کلام میں روشنی، اور اس کے رویے میں انسانیت ہو۔ یہی طریقہ ہے جس سے دل فتح ہوتے ہیں اور یہی وہ راہ ہے جو صدیوں تک زندہ رہتی ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International