rki.news
کالم نگار: سلیم خان
ہیوسٹن (ٹیکساس) امریکا
کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے زندگی اب محض ایک خبر کا عنوان بن کر رہ گئی ہے۔ ایک عدد لاش، ایک سنّاٹا، اور اس کے بعد آنے والی بےحسی کی کوئی نئی لہر۔۔۔۔۔……
عورت، جو زندگی کی علامت تھی، اب اکثر موت کی تصویر بن کر ہی سامنے آتی ہے۔ کوئی پردے میں بیٹھی ماں ہو، یا لاکھوں لوگوں کے جھرمٹ میں رقص کرتی ہوئی ٹک ٹاکر۔ آج کی عورت سب سے زیادہ تنہا، غیرمحفوظ اور بےوقعت دکھائی دیتی ہے۔ یہ صرف وہ لاشیں نہیں جو زمین پر پڑی ہوتی ہیں، یہ وہ جسم بھی ہیں جو سانس لیتے ہوئے بھی مردہ ہو چکے ہوتے ہیں۔ کتنی ہی عورتیں ایسی ہیں جو اپنے گھروں میں خاموشی سے دم توڑ دیتی ہیں، اور مہینوں بعد ان کی لاش ملتی ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں، کوئی در کھٹکھٹانے والا نہیں، نہ کوئی ہمسایہ، نہ کوئی رشتہ دار۔ یوں لگتا ہے جیسے سماج کی اجتماعی روح میں کوئی دراڑ آ چکی ہے، جس میں انسانیت کا خون آہستہ آہستہ رس رہا ہے۔
اور پھر وہ لڑکیاں، وہ خواتین جو شہرت کی روشنی میں جھلملاتی ہیں، جنہیں لاکھوں لوگ روز دیکھتے ہیں، داد دیتے ہیں، ان کے ویڈیوز پر دل بناتے ہیں، وہ بھی ایک دن کسی خبر کی زینت بن جاتی ہیں۔ “فلاں اداکارہ مردہ حالت میں ملی”، “ٹک ٹاکر کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔” یہ جملے اب اتنے عام ہو گئے ہیں کہ سننے والوں کے دل میں کوئی جنبش تک نہیں ہوتی۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسی دنیا میں جہاں سوشل میڈیا پر ہر لمحہ لائک اور شیئر کی بارش ہوتی ہے، وہاں اصل انسان کیوں بے مول ہو چکا ہے؟ وہ عورت جو بظاہر ہنستی مسکراتی ویڈیوز بناتی ہے، آخر وہ تنہائی کی کن گہرائیوں میں ڈوبی ہوتی ہے جہاں سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں؟
یہ محض فرد کی تنہائی نہیں، یہ اجتماعی ضمیر کی موت ہے۔ ہمارے رویے، ہماری بےحسی، ہمارا عدمِ اعتراف، سب اس سانحے میں برابر کے شریک ہیں۔ ہم نے زندگی کو ریٹنگز اور ویوز میں تولنا سیکھ لیا ہے۔ یہاں اب دل نہیں، صرف انگھوٹے اوپر یا نیچے ہوتے ہیں۔ کیا زندگی اتنی ارزاں ہو گئی ہے کہ کوئی کسی کی جان لے لے، اور دوسرے دن سب کچھ معمول پر آ جائے؟ کبھی یہ جرم محبت کے نام پر ہوتے ہیں، کبھی غیرت کے، کبھی معاشی مسائل کے پس منظر میں۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ جان کی قیمت ختم ہو چکی ہے۔ اور خاص طور پر عورت کی جان، جو پہلے بھی صدیوں سے ناپ تول میں کم شمار کی جاتی رہی ہے، آج کے جدید معاشرے میں بھی محض ایک جسم بن کر رہ گئی ہے استعمال ہو جانے والا، اور جب جی چاہے مٹا دینے والا۔
یہ چند عورتوں کا المیہ نہیں یہ سماج کے زوال کی علامت ہے۔ جب زندگی کی حرمت ختم ہو جائے تو رشتے، اعتبار، عزت سب کچھ بازیچۂ اطفال بن جاتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عورت کی زندگی صرف جسمانی موجودگی نہیں، وہ ایک سوچ، ایک خواب، ایک کائنات ہے۔ اگر ہم نے اپنی بےحسی اور خودغرضی کے خول نہ توڑے تو آنے والا کل ہم سے بھی یہ سوال کرے گا کہ کیا تم زندہ تھے یا صرف سانس لے رہے تھے؟
,مجھے یہاں “پارس کیانی” کی نظم حسب حال محسوس ہو رہی ہے۔
نظم:
وہ روز آتی تھی، مسکراتی تھی
پردہ رنگیں پہ لاکھوں انگلیاں
اسے like کرتی تھیں۔۔۔۔۔
ہزاروں emoji، دلوں میں طوفان
پھر ایک روز بند کمرا
خاموش تنہائی، اور لاوارث جسم
اخبار نے لکھا؛۔۔۔۔
مردہ حالت میں ملی۔۔۔۔
کئی ہفتے پرانی لاش۔۔۔۔۔
سوال یہ ہے؟
وہ لاکھوں چاہنے والے کہاں تھے۔۔۔! ! !؟
🤍🖤🤍🖤🤍
Leave a Reply