تازہ ترین / Latest
  Saturday, October 19th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

کتاب:اردو نظم اور معاصر انسان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مصنف:ڈاکٹر طارق ہاشمی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تبصرہ:ڈاکٹر عامرسہیل

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Sunday, March 17th, 2024

ڈاکٹر طارق ہاشمی کے ساتھ میری دوستی کا سلسلہ اُس وقت سے مستحکم ہے جب ڈاکٹر صابر کلوروی صاحب صدر شعبہ اردو (پشاور یونیورسٹی) کے قومی سیمینار باڑہ گلی میں منعقد ہوا کرتے تھے۔اس بات کو 22 یا 25 سال ہو چکے ہیں،یعنی ہماری دوستی ایک ربع صدی پر محیط ہے۔خیر یہ تمہید میں نے اس لیے باندھی کہ باقی احباب کو یہ بتا سکوں کہ اتنی پرانی دوستی کے باوجود میں نے ہاشمی کی تمام کتابوں کو دوست کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک ایسے قاری کی طرح پڑھا ہے جو ہاشمی کو صرف اس کی شاعری،تنقیدات اور تحقیقات کے حوالے سے جانتا پہچانتا ہے۔
پیارے ہاشمی نے مجھے یہ کتاب اپنے دست خط کے ساتھ 14 مئی 2015 کو دی تھی اور آج 17 مارچ2023 ہے،جو احباب ذرا حساب کتاب میں اچھے ہیں ان کو پتا لگ گیا ہو گا کہ یہ تبصرہ میں نے عجلت میں ہرگز نہیں لکھا۔پورب اکادمی اسلام آباد نے یہ کتاب ڈاکٹر تحسین فراقی کے فلیپ کے ساتھ فروری 2015 میں شائع کی تھی۔
یہ کتاب(اردو نظم اور معاصر انسان) اپنے موضوع کے اعتبار سے بہت منفرد ہے کیوں کہ یہاں ڈاکٹر طارق ہاشمی نے اردو نظم کی فکری اور موضوعی جمالیات کو فلسفہ، عمرانیات،مذہبیات،تصوف اور نفسیات کی روشنی میں پرکھنے کی کوشش کی ہے۔معاصر انسان کی تفہیم ادب کے ساتھ ان سماجی علوم کی مدد سے بھی ممکن ہے جو براہ راست انسان اور اس کے تمام متعلقات کو سمجھنے میں معاونت کر سکتے ہیں، یہی وہ اہم نکتہ اور نقطہ ہے جسے کلید بنا کر ہاشمی نے نظم فہمی کا طویل اور کٹھن سفر اختیار کیا۔کمال بات یہ ہے کہ اردو نظم اور معاصر انسان کی راست تفہیم کے لیے ہاشمی نے سب سے پہلے کلاسیکی غزل کا ایک مبسوط اور پر مغز تناظر مہیا کیا ہے تاکہ اس بحث کی تمام کڑیاں از اول تا آخر باہم مربوط رہیں۔
اس غزلیہ تناظر میں غزل کے نمائندہ کلاسیکی شعرا مثلا ولی،میر،درد،غالب، ذوق اور آتش کو منتخب کیا ہے۔پھر جدید نظم کا باقاعدہ اور باضابطہ آغاز نظیر اکبر آبادی سے ہوا ہے۔نظیر کی نظموں میں موجود انسان اور طبقات کی کش مکش،اخلاقی صورت حال،مقامی ثقافت،فکر و عمل کی نیرنگی، رنگا رنگ تصورات و توہمات اور نظیر کی اپنی وسیع المشربی کو بہت عمدگی سے سامنے لایا ہے۔نظیر کی ان شعری قدروں کو بھی موضوع بحث بنایا گیا جس میں وہ اتحاد نوع انسانی کے علم بردار نظر آتے ہیں۔
کتاب کا ایک باب اقبال اور ن م راشد کے نظمیہ مطالعات پر مشتمل ہے۔اقبال کے تصور انسان کو ان سماجی تصورات کی روشنی میں پرکھا گیا جو معاصر انسان کی تشکیل میں بنیاد کا درجہ رکھتے ہیں۔ظاہر ہے یہ مطالعہ مرد کامل اور مرد مومن کے کے بغیر نامکمل ہیں لہذا ہاشمی نے عام اقبال شناسوں کی روایت سے ہٹ کر یہ تجزیات مرتب کیے ہیں اور قاری کو نئے فکری زاویوں کی طرف بھی متوجہ کیا ہے۔
ن م راشد کا بڑا مسلہ حقیقت انسان کے گرد گھومتا ہے،اس بنیادی نکتے کو مرکز مان کر ہاشمی نے ہمیں کلیات راشد کی بعض نظموں کو نئے سرے پڑھنے کی دعوت دی ہے۔
یہ مطالعات شاعر کے تخلیقی آدرش کو واضح کرتے ہیں۔
ڈاکٹر طارق ہاشمی کی یہ کتاب ترتیب و تہذیب کے حوالے سے خاصے کی چیز ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے موضوع کو کبھی خالص انفرادی سطح پر اور بہ وقت ضرورت اجتماعی سطحوں پر بھی دیکھنے دکھانے کی سعی کرتے ہیں ۔اس خصوص میں وہ جدید نظم اور معاصر انسان کا کھوج لگانے کے لیے ترقی پسند تحریک اور حلقہ ارباب ذوق کے تمام نمائندہ شاعروں پر کھل کر بات کرتے ہیں،بلکہ اس تقسیم میں جو شعرا نہیں آ سکتے ان پر بات کرنے کے لیے “غیر وابستہ لحن”(اس اصطلاح کے بانی ہمارے ہاشمی بقلم خود ہیں ) کے زیر عنوان مجید امجد،اختر الایمان،منیر نیازی، عزیز حامد مدنی،وزیر آغا اور مصطفی زیدی کے فکری حالات کو زیر بحث لایا ہے۔یہ معاملہ تو چوں کہ معاصر انسان کی دریافت ہے تو ہمارے ہاشمی کتاب میں ایک عنوان “نئی نظم” قائم کرتے ہیں اور وہاں انسان کی فکری، روحانی اور نفسیاتی کیفیت کو نظمیہ تناظرات میں ڈھونڈنے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں۔پھر اس کے بعد معاصر منظر نامے میں نئے اور جدید رنگ میں لکھنے والے شعرا جیسا کہ رفیق سندیلوی،اختر عثمان، علی محمد فرشی،جاوید انور،پروین طاہر،مقصود وفا،روش ندیم اور سلیم شہزاد کے شعری اظہاریوں میں اپنے موضوع کے مزید نئے پہلو دریافت کیے ہیں ۔
ڈاکٹر طارق ہاشمی کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ شعریات کے بیان میں جس تنقیدی زبان اور اسلوب کا استعمال کرتے ہیں وہ بار بار قاری کو اپنی جانب متوجہ کر لیتا ہے۔ان کا ہر بیان بہت جچا تلا اور سلیقہ مندی کا عکاس ہے۔ان کی تنقیدی زبان کہیں بھی شعری ساختوں کو مسخ نہیں کرتی بلکہ شعری لطافتوں کو مزید نمایاں کرتی ہے۔یہ خوبی ہمارے ہاں جدید تنقید لکھنے والوں میں خال خال نظر آتی ہے۔ہاشمی کا کمال ہے کہ وہ اپنی تنقید کو فنکارانا ڈسکورس میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ان کا ہر تنقیدی بیانیہ جہاں لفظیاتی اور معنیاتی سطحوں کو متحرک رکھتا ہے وہاں لسان و بیان کی جمالیاتی قدروں کو اپنے اندر سمیت کر تخلیقی تنقید کی راہ بھی ہموار کرتا ہے


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International