rki.news
اویس اور یاسمین آج پھر ریستوران میں ایک دوجے کے آمنے سامنے سوالیہ نشان بنے بیٹھے تھے خاموشی کا قفل ٹوٹا۔
“دکھ یہ ہے کہ ہم دونوں ایک دوجے کو پا ہی نہیں سکتے۔” اویس کا لہجہ مایوس کن تھا۔
“اس سے بھی بڑھ کر دکھ یہ ہے کہ ہم دونوں اک دوجے کو کھو کر بھی تو جی نہیں سکتے۔” یاسمین کے انداز میں بےبسی تھی محبت میں نارسائی کا دکھ بول رہا تھا۔
پا لینے اور کھو دینے کے مابین کوئی راستہ ڈھونڈو اور ہاں دیکھو ریستوران کی لمبی میز کے دونوں کونوں پر اپنے آگے ٹھنڈی ہوتی چائے رکھے یوں ہم دونوں آخر کب تک بیٹھے رہیں گے؟
اویس ساگر کے پاس یاسمین کی باتوں کا جواب صرف خاموشی تھی، چائے کی طرح اویس ساگر کی ٹھنڈی خاموشی میں اسے اپنی باتوں کا جواب مل گیا تھا وہ سمجھ گئی تھی کہ ریستوران کی اس لمبی میز پر وہ اس کے ساتھ گرم چائے کبھی نہیں پیئے گی۔
یاسمین نے ویٹر کو آواز دی اور ٹھنڈی چائے کا بل ادا کر دیا۔
✍سُباس گُل
رحیم یار خان
❤️❤️