rki.news
ظاہر میں کر رہے ہیں وہ ہم دردیاں نہ پوچھ
لیکن ہیں دل میں کتنی دغابازیاں نہ پوچھ
مجرم ٹہل رہے ہیں بڑی آن بان سے
ہم بے گنہ پہ سختیاں پابندیاں نہ پوچھ
یوں تو محافظوں کی قطاریں تھیں چار سو
ویران كس طرح سے ہوئیں بستیاں نہ پوچھ
تنخواہ سے تو گھر کا چلانا محال ہے
کیسے بنائیں اس سے مگر کوٹھیاں نہ پوچھ
کچھ مصلحت سے ظُلم و ستم سہ رہا ہوں میں
کیا کِیا ہیں مرے سامنے مجبوریاں نہ پوچھ
آب رواں کو دیکھ کے دل نے یہی کہا
کس درجہ محترم ہیں تری ایڑیاں نہ پوچھ
چاقو کا یہ کمال کہیں یا جمال حُسنِ
کس طرح سے فگار ہوئیں اُنگلیاں نہ پوچھ
منصور ہر سوال کا رکھتا تھا وہ جواب
کیوں آج کل خموش ہے اس کی زباں نہ پوچھ
منصور اعظمی دوحہ قطر
Leave a Reply