شنید ہے کہ ہمارے بجٹ کا انحصار بیرونی قرضوں پر ہے کیونکہ جب سے ہم نے بیرونی قرضے لینے شروع کئے ہیں تب سے ہی کرپشن کی بازگشت سنی جا رہی ہے. سیاستدان بھی ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگاتے ہیں لیکن بوقت ضرورت سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر اپنے مخالفین کو گلے بھی لگا لیتے ہیں. بیرونی قرضوں کے مَصرف سے تو عوام آگاہ نہیں البتہ جب مہنگائی اپنا رنگ دکھاتی ہے تو پتہ چل جاتا ہے کہ بیرونی قرضوں کی اقساط کی ادائیگی کے لئے عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بھی ڈالا جا رہا ہے اور بجلی، گیس، پٹرول کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا جاتا ہے جس سے سیاستدان اور سرکاری اعلیٰ افسران پر تو اثر نہیں پڑتا البتہ غریب اور درمیانے درجے کے لوگوں کی چیخیں ضرور سنائی دیتی ہیں. وزیراعظم نے اپنے ایک حالیہ بیان میں عوام سے وعدہ کیا کہ کرپٹ افسران کے خلاف کاروائی کی جائے گی چونکہ قانون کی نظر میں سب برابر ہوتے ہیں. اس لئے عوام کی نظریں اب عدلیہ پر لگی ہیں جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور پرویز مُشرف کی دستور شکنی پر قابل ستائش فیصلے سُنائے. ہمیں اُمید ہے کہ وزیراعظم اپنے متذکرہ بالا بیان کی روشنی میں ذولفقار علی بھٹو اور پرویز مشرف کے مقدمات کی طرح سیاستدانوں کے خلاف کرپشن کے اُن مقدمات کو بھی عدالت عالیہ کی نظر ثانی کے لئے پیش کریں گے جو این ار او یا قوانین میں ترامیم کی نظر ہو کر ختم کر دیئے گئے جس سے عوام کو نا اُمیدی ہوئی.
کتاب سادہ رہے گی کب تک- کبھی تو آغاز باب ہوگا
جنہوں نے بستی اُجاڑ ڈالی- کبھی تو اُن کا حساب ہوگا
شہزادہ ریاض
Leave a Reply