تازہ ترین / Latest
  Wednesday, October 23rd 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

جرمنی میں روزہ کشائی

Articles , Snippets , / Tuesday, March 19th, 2024

سلمان اور سعدیہ جرمنی کے دارالحکومت برلن میں اپنے والدین کے ساتھ رہتے تھے۔ جرمنی میں یوں تو بہت سارے مسلمان آباد ہیں لیکن اس کے باوجود وہاں عید پر چھٹی نہیں ہوتی ہے۔ البتہ اسکول کے بچوں کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ عید کے روز ایک دن چھٹی کرسکتے ہیں۔ جب سلمان اور سعدیہ کی روزہ کشائی ہوئی تو اس سال رمضان کا مہینہ مارچ سے شروع ہوا تھا۔ ابتدائی روزے پندرہ گھنٹے کے تھے۔ یعنی صبح ساڑھے چار بجے فجر اور شام ساڑھے چھ بجے مغرب ، اس لیے سعدیہ اور سلمان کے والدین نے دوسرے روزے کو ہی اُن دونوں کی روزہ کشائی کے لیے اپنے ہندوستانی، پاکستانی، ترکی ، عربی، بنگلہ دیشی اور کچھ جرمن دوستوں کو گھر پر افطار کے لیے بُلایا تھا۔ سعدیہ اور سلمان کی عمر آٹھ سال تھی اور اُن کے والدین فکر مند تھے کہ یہ دونوں اتنا لمبا روزہ رکھ پائیں گے کہ نہیں۔ لیکن ان دونوں جڑواں بہن بھائی کو روزہ رکھنے کا بے حد شوق تھا۔ انہوں نے کچھ سال پہلے ایک بار رمضان حیدرآباد میں اپنے دادا دادی کے یہاں گزاراتھا اور چچا زاد بھائی سلیم کی روزہ کشائی دیکھی تھی جہاں سلیم کو روزہ رکھنے پر خوب تحفے ملے تھے اور خاندان کے بہت سارے لوگ اس تقریب میں شرکت کے لیے آئے تھے اور سب ہی نے ساتھ افطار کرکے مغرب کی نماز ادا کی تھی۔ اُس روز سلمان اور سعدیہ نے اپنے امی اور ابو سے خواہش کی تھی کہ وہ بھی اگلے سال روزہ رکھنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے رشتہ داروں کو اس تقریب میں بلانا چاہتے ہیں۔ لیکن جرمنی میں اُن کا کوئی رشتہ دار نہ تھا ۔ چونکہ جرمنی میں گرمیوں میں دن بہت لمبے ہوتے ہیں اس لیے یہاں گرمی میں روزہ بھی کم از کم بیس گھنٹے کا ہوتا ہے۔ جو بڑے لوگوں کے لیے بھی بہت زیادہ طویل ہے۔ ایسے میں اتنے چھوٹے بچے اتنا لمبا روزہ نہیں رکھ پاتے ہیں۔ سلمان اور سعدیہ نے تین سال انتظار کیا اور اب وہ اپنی روزہ کشائی کی تقریب جرمنی میں اپنے مسلمان دوستوں کے ساتھ کر رہے تھے۔
سعدیہ اور سلمان جب صبح سحری کھانے کے لیے اٹھے تو انہیں بہت اچھا لگا۔ امی نے گرم پراٹھے اور آملیٹ سے سحری کروائی اور ابو نے گھڑی میں اذان کے الارم پر اُن دونوں کو وضو کروایا اور سب کے ساتھ باجماعت نماز گھر پر ہی پڑھی۔ سلمان کو یاد آرہا تھا کہ حیدرآباد میں تو صبح سحری کے وقت ایک چہل پہل تھی۔ محلے کی مساجد میں اذان کی آوازیں کیسا اچھا سماء باندھ دیتی تھیں۔ لیکن جرمنی میں مسجدیں بھی کم اور بہت دوری پر ہیں اور یہاں لاؤڈ اسپیکر پر اذان کی بھی پابندی ہے۔ اس لیے لوگ اپنے گھروں میں گھڑی کے الارم کے بجنے پر نماز ادا کرتے ہیں۔ سحری کے بعد وہ دونوں کچھ دیر قران پڑھتے رہے اور پھر اسکول کے لیے تیار ہوکر روانہ ہوگئے۔
سعدیہ اور سلمان کی کلاس ٹیچر کو جب معلوم ہوا کہ آج اِن دونوں کا پہلا روزہ ہے تو انہوں نے سعدیہ اور سلمان کو اسپورٹس کا پیریڈ لینے سے منع کردیا اور اُنہیں کہا کہ آج پہلی بار روزہ رکھنے کی وجہ سے اُن کو جلدی چھٹی دے دی جائے گی ورنہ جرمنی میں اسکول بھی صبح آٹھ بجے سے دوپہر تین بجے تک ہوتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ٹیچر نے کہا کہ باقی رمضان میں انہیں روزہ رکھنے پر کوئی رعائت نہیں دی جائے گی اور اگر وہ روزہ رکھیں گے تو اسپورٹس کا پیریڈ لینا بھی ضروری ہوگا۔اس لیے بہتر ہے کہ وہ صرف ویک اینڈ پر ہی روزہ رکھیں۔ جرمنی کے اسکولوں میں رمضان کے اوقات یا دیگر سہولت میں رعایت نہیں دی جاتی ہے۔ اسی لیے پرائمری اسکول کے بچے روزے نہیں رکھتے ہیں۔
سعدیہ اور سلمان جب جلدی گھر آگئے تو انہیں بھوک اور پیاس کے ساتھ تھکن بھی محسوس ہورہی تھی۔ لیکن اُن کی امی نے انہیں سمجھایا کہ بھوک پیاس برداشت کرنے اور اللہ کو یاد کرنے کا نام ہی روزہ ہےاس کے ساتھ ساتھ جسم اور زبان کا بھی روزہ ہوتا ہے لہٰذا جسم کو زیادہ نہ تھکاؤ اور دل اور زبان پر اللہ کا ذکر رکھو تاکہ وہ تمہیں قوت برداشت عطا کرئے۔ سعدیہ اور سلمان نے امی کے ساتھ وضو کرکے ظہر کی نماز پڑھی اور ہوم ورک کرتے کرتے دونوں بہت تھک گئے تھے اس لیے کچھ دیر سو گئے۔ امی نے عصر کی نماز کے بعد اُن دونوں کو بتایا کہ ابو نے کچھ دوستوں اور ان کے بچوں کو روزہ کشائی کی تقریب پر بلایا ہے اور ساتھ ہی وہ بھی دفتر سے جلدی آرہے ہیں تاکہ افطاری بنانے میں امی کی مدد کرسکیں۔
مغرب کی نماز سے پہلے ابو کے ایک بنگلہ دیشی دوست اور ان کے بیوی بچے گلاب جامن لے کر آگئے، اسی طرح امی کی ایک پاکستانی سہیلی اپنے میاں اور بچوں کے ساتھ دہی بڑے اور پھل لے کر آگئیں۔ ہمارے عربی اور ترکی پڑوسی بھی کھجوروں کے ساتھ افطاری کا سامان اور کیک لے کر آئے تو رنگ برنگے پکوان سے افطاری کا دسترخوان سج گیا۔ امی نے مزیدار پکوڑے اور سموسے گھر پر تیار کئے جب کہ ابو نے بہت سارے مختلف پھلوں کو کاٹ کر فروٹ سلاد تیار کیا۔ سعدیہ اور سلمان نے لاؤنج میں زمین پر بڑا سا دسترخوان بچھایا اور افطار اس پر چُن دیا۔ سب ہی مہمان دسترخوان پر بیٹھ کر دعا مانگتے رہے اور گھڑی میں اذان الارم کے بجتے ہی سب نے مل کر افطار کیا۔ سب ہی نے سعدیہ اور سلمان کو تحفے بھی دیے تو انہیں ایسا لگا کہ جرمنی میں بھی ایک حیدرآباد جیسا رمضان کا دن آگیا ہے جس میں تمام مسلمان بہن بھائی، ذات پات، رنگ و نسل اور مادری زبان کے فرق سے الگ ایک خاندان کی طرح مسلمُ اُمّہ بن کر رمضان منارہے ہیں۔ سعدیہ اور سلمان کے لیے آج کا دن بہت یادگار تھا ۔ مغرب کی نماز کے بعد امی ابو اور تمام مہمانوں نے ارادہ کیا کہ وہ سب مل کر عید کی نماز بھی ایک ساتھ اسی طرح پڑھیں گے اور عید بھی یونہی مل بیٹھ کر منائیں گے۔ سعدیہ اور سلمان کو محسوس ہورہا تھا کہ جرمنی کے سخت روزے گزارنے کے بعد عید کی اصل خوشی تمام مسلم دوستوں کے ساتھ اتحاد اور محبت میں ہی پوشیدہ ہے ۔ انہوں نے یہ بھی ارادہ کیا کہ وہ اس خوشی کے حصول کے لیے ہمیشہ روزے رکھنے اور نماز ادا کرنے کی مشق جاری رکھیں گے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International