rki.news
تحریر: احسن انصاری
ہر سال کی طرح، جولائی 2025 میں بھی مون سون بارشوں نے پاکستان کو ایک بار پھر شدید آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ ملک بھر میں طوفانی بارشوں، فلش فلڈز اور گلیشیئرز کے پگھلنے سے اب تک 200 کے قریب افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں آدھے سے زائد بچے شامل ہیں۔ سب سے زیادہ تباہی پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ہوئی، جہاں درجنوں گھر گر گئے، سڑکیں بہہ گئیں اور ہزاروں افراد بے گھر ہو گئے۔ یہ منظر 2022 کی اُس ہولناک یاد کو تازہ کر رہا ہے جب ایک تہائی پاکستان پانی میں ڈوب گیا تھا۔
سب سے زیادہ دل دہلا دینے والی حقیقت بچوں کی ہلاکتیں ہیں۔ مختلف حادثات، جیسے ڈوبنے، بجلی کا کرنٹ لگنے اور چھتیں گرنے سے 85 سے زائد بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ صرف 17 جولائی کو پنجاب میں 63 افراد ایک ہی دن میں ہلاک ہو گئے۔ مجموعی طور پر جولائی کے وسط تک ملک بھر میں 180 سے 200 افراد جاں بحق جبکہ 650 سے زائد زخمی ہوئے۔ خیبرپختونخوا میں 38 اموات رپورٹ ہوئیں جبکہ بلوچستان اور سندھ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
ان بارشوں نے نہ صرف انسانی جانوں کا نقصان کیا بلکہ پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کو بھی بُری طرح متاثر کیا۔ ایک ہزار سے زائد گھر مکمل یا جزوی طور پر منہدم ہو گئے۔ خاص طور پر کچی آبادیاں، جہاں نصف سے زائد شہری آبادی رہتی ہے، سب سے زیادہ متاثر ہوئیں۔ سڑکیں، پل، علاقائی ڈیم اور مواصلاتی نظام متاثر ہوئے ہیں گئے۔ چکوال میں 400 ملی میٹر بارش سے گاؤں پانی میں ڈوب گئے جبکہ راولپنڈی میں نالہ لئی کی سطح بلند ہونے سے ہزاروں افراد کو نکالنا پڑا۔ زرعی زمینیں بھی متاثر ہوئیں اور فصلیں تباہ ہو گئیں، جس سے دوبارہ 2022 جیسے معاشی بحران کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
پنجاب اس بحران کا مرکز بنا رہا، جہاں اب تک 103 سے زائد اموات اور 393 سے زائد زخمیوں کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ لاہور اور راولپنڈی میں شدید پانی جمع ہونے کی شکایات ہیں۔ خیبرپختونخوا میں سیاحتی مقام سوات میں سیلابی ریلوں نے نہ صرف مقامی لوگوں بلکہ سیاحوں کو بھی نشانہ بنایا۔ گلگت بلتستان میں درجہ حرارت 48 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا، جس سے گلیشیئرز تیزی سے پگھلے اور گلیشیئر لیکس کا خدشہ بڑھ گیا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ پورے خطے میں صرف 13 گلیشیئر مانیٹرنگ اسٹیشنز کام کر رہے ہیں جبکہ اسلام آباد میں اکیلے ہی 47 مراکز موجود ہیں۔
پاکستان کا حالیہ بحران صرف قدرتی نہیں بلکہ ایک حد تک گورننس کی بھی کمزوری ہے۔ پاکستان دنیا بھر میں صرف 0.5 فیصد ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والا ملک ہے لیکن ماحولیاتی تباہی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ 2024 کی نسبت 2025 میں مون سون کی شدت 82 فیصد تک بڑھ چکی ہے، پنجاب میں یہ شرح 124 فیصد تک پہنچ گئی۔ ان حقائق کے باوجود، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کے جاری کردہ وارننگز اکثر غیر واضح اور ناقابل عمل ہوتی ہیں۔ شہری علاقوں میں ندی نالوں پر غیر قانونی تعمیرات، بلاک شدہ نکاسیٔ آب اور غیر منصوبہ بند آبادی نے خطرے کو مزید بڑھا دیا ہے۔
ریسکیو کا نظام بھی شدید دباؤ کا شکار ہے۔ پنجاب میں صرف 100 مستقل ریسکیو اہلکار موجود ہیں جبکہ باقی صوبوں میں یہ تعداد اس سے بھی کم ہے۔ NDMA کی صرف 6 قومی ریسکیو ٹیمیں ہیں جن میں مجموعی طور پر 700 افراد کام کرتے ہیں، جو کہ 25 کروڑ آبادی والے ملک کے لیے ناکافی ہے۔
اگرچہ کچھ علاقوں میں فوجی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے متاثرین کو نکالا گیا اور پنجاب میں دفعہ 144 نافذ کر کے ندی نالوں میں داخلے پر پابندی لگائی گئی، لیکن مجموعی طور پر ریاستی ردعمل سست اور غیر موثر رہا۔ 2022 کی تباہی کے بعد عالمی سطح پر پاکستان کے لیے 10 ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن 2024 تک صرف 2.8 ارب ڈالر ہی موصول ہوئے۔ ماہرین اس تاخیر کو حکومتی اصلاحات کی عدم موجودگی سے تعبیر کرتے ہیں۔ سابق وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی شیری رحمان کہتی ہیں: “یہ قدرتی آفات نہیں بلکہ انسانی غفلت کا نتیجہ ہیں۔ سپر مون سون معمول نہیں ہیں۔ پاکستان کو اب جاگ جانا چاہیے۔”
اس بحران سے نمٹنے کے لیے صرف ہنگامی امداد کافی نہیں۔ پاکستان کو 2050 تک ہر سال 40 سے 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہے تاکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹا جا سکے۔ مقامی سطح پر ایمرجنسی وارننگ سسٹمز قائم کیے جائیں، گلیشیئرز کی مانیٹرنگ کے لیے جدید سینسرز نصب کیے جائیں اور شہری منصوبہ بندی کو از سر نو تشکیل دیا جائے تاکہ ندی نالوں پر بنی آبادیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا سکے۔
اگر یہ بنیادی اقدامات نہ کیے گئے تو مون سون کا ہر سال ایک نئی تباہی کی کہانی لے کر آئے گا۔ پاکستان کو اب جذباتی تقاریر سے نکل کر عملی اصلاحات کی جانب بڑھنا ہو گا، ورنہ ہر سال سیکڑوں املاک اور جانی نقصان اس قوم کا مقدر بن جائیں گے۔
Leave a Reply