تازہ ترین / Latest
  Wednesday, October 23rd 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

ہم یہ سمجھے کہ ہیں مظلوم بہت

Articles , Snippets , / Tuesday, March 19th, 2024

ہمیں بچپن ہی سے یہ سکھا دیا گیا تھا کہ انسان کے لیے سب سے بہتر اس کے اچھے اخلاق ہیں جن کی بنا پہ اچھے اور برے میں تفریق کی جا سکتی ہے. اور دادی اماں ہم تمام بچوں کو سردیوں کی اداس اور برفیلی راتوں میں کویلوں والی انگیٹھی کے ارد گرد بٹھا کے بڑے دھیمے لہجے میں واشگاف بتاتی تھیں کہ نرم لہجے، نرم مزاج، صلح جو طبیعت اور معاف کرنے والے انسان پہ دوزخ کی آگ حرام ہو جاتی ہے. اور دادی کے یہ موتیوں جیسے الفاظ ہمارے سینوں میں ہی نہیں ہماری زندگیوں میں بھی شامل تھے اور ماں اتنی نرم مزاج اور کھلے دل کی تھی کہ ملازمین کو کھانا سب سے پہلے دیتی اور ان کے دکھ سکھ میں برابر شریک رہتی ملازمین کے ساتھ ان کا رویہ بڑا ہی شفقت آمیز اور منصفانہ ہوتا تھا. ہمیں یہ سکھایا گیا تھا کہ ملازم مظلوم ہوتے ہیں مگر نظام کائنات کو رواں دواں رکھنے کے لیے سماجی تفرقات اللہ پاک نے پیدا کیے اور انسان کو اپنے عطا کردہ منصب کے مطابق پوری ایمانداری سے اپنے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہیئے. عزت ذلت، اللہ کے عطا کردہ تحایف ہیں. تو ملازمین کے حقوق کا خیال رکھنا بلا شبہ مالکوں کی ذمہ داری ہے مگر اپنے کام کو ذمہ داری سے انجام دینا ملازمین کا اولین فرض ہے.
نازلی ایک ڈرامہ آرٹسٹ تھی اسے بچپن ہی سے ایکٹنگ کا شوق تھا اس نے اپنے اس شوق کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے بہت لمبا سفر طے کیا تھا اور اب وہ اس مقام تک پہنچ چکی تھی جہاں پروڈیوسرز اور چینلز اس کے پیچھے پیچھے ہوتے تھے اور نازلی کے پاس ان سے دو منٹ کی بات کرنے کی فرصت نہ ہوتی تھی دولت اس پہ فدا تھی اس کے بنک دولت سے بھرے پڑے تھے ہاں اس سارے کھیل میں نازلی اپنے تمام رشتوں کو کھو چکی تھی والد کو تو اس کے ایکٹنگ کے شوق کا ہی سن کر ہارٹ اٹیک آ گیا تھاماں کءی سال گھنٹیا جیسے موذی مرض میں مبتلا رہ کر موت کی ہم سفر ہو چکی تھی اکلوتے بھائی کی مذہبی رجحان والی بیوی کے لیے کسی ایکٹرس کی بھابھی ہونا ہی سوہان روح تھا لہذا بہن بھائی دونوں ایک ہی شہر کی فضاوں میں سانس تو لیتے تھے مگر ایک دوسرے کے لیے کسی بھی اجنبی سے بڑھ کے اجنبی تھے.
اب تو ماں جاے بھی اجنبی تھے
کب خوشی تھے وہ سدا غمی تھے
تو نازلی نے اپنی تنہائی کو بانٹنے اور گھر کی دیکھ بھال کے لیے ایک فلپاینی عورت کو اچھی خاصی سیلری پہ Hire کر لیا. اور بڑی بے فکری سے اپنی شو بز کی دنیا میں مگن ہو گءی آج نازلی کی رات کی شوٹنگ تھی گھر کی چابیاں، پیسہ دھیلا، زیورات، کپڑے لتے ہر شے انا جی کے سپرد تھیں. نازلی انا جی کو خدا حافظ کہہ کے تقریباً نو بجے گھر کو چھوڑ آی اور جب اگلے دن بارہ بجے گھر پہنچی تو وہ دوبارہ سے سڑک پہ تھی اس کی مکار ملازمہ نے بڑی ہوشیاری سے سوتے میں شٹام پیپرز پہ اس کے انگو ٹھے لگوا کر اس کے new گھر زیوارت،اور گاڑی ہر شے کو بیچ دیا تھا اور خود ملک ہی چھوڑ گءی تھی.
گھریلو ملازمین میں یہ انتہائی ماڈرن ڈکیت ایسی خواتین کو شکار کرتے ہیں جو عموماً تنہا ہوتی ہیں ورکنگ ہوتی ہیں پیار کی ترسی ہوی اور زمانے کی ٹھکرای ہوی ہوتی ہیں تو یہ ملازمہ نامی ڈاکو رانیاں ان محروم محبت خواتین کو اپنی میٹھی زبان اور خدمت گزاری سے اپنے شیشہ محبت میں گرفتار کرتی ہیں مالک کا گہرا اعتماد حاصل کرتی ہیں چابیوں اور بیلنس تک رسائی پاتی ہیں ضروری documents قابو کرتی ہیں مالکہ چونکہ زیادہ وقت گھر سے باہر یوتی یے تو یہ مالکہ کے گھر گاڑی اور دیگر سازو سامان کو بیچ کر پیسے سمیت بیرون ملک سدھار جاتی ہیں اور وہ دھکے کھا کے سٹیٹس اور دولت کے پیچھے سرپٹ ہرنی کی مانند قلانچیں مارتی ہوی مالکہ کی ٹانگیں توڑ کر اسے اپاہج کر کے نو دو گیارہ ہو جاتی ہیں .
تو آپ کی راے میں ملازمہ مظلوم ہوی یا مالکن؟
غلام رسول واپڈا میں لاین مین تھا اس کے گھر میں دولت کی ریل پیل اور ملازمین کی بھر مار تھی دل کا بھی نرم تھا اور ملازمین کے ساتھ رحم دلی کا برتاؤ بھی خوب رکھتا تھا اس کی بیوی ڈلیوری کے سلسلے میں ہسپتال میں داخل تھی کیس کچھ پیچیدہ تھا. غلام رسول اور اس کی ماں زچہ کے ساتھ ہسپتال میں تھے گھر میں غلام رسول کی اکلوتی چھ سالہ بیٹی علیحاہ تھی غلام رسول کے مالی کو کچھ پیسوں کی ضرورت تھی اس نے بجاے غلام رسول سے پیسے مانگنے کے علیحاہ کے کانوں سے سوتے ہوے سونے کی بالیاں نوچ لیں بچی ڈر کے اٹھی تو غلام رسول نے پہچانے جانے کے خوف سے معصوم علیحاہ کا گلا ہی دبا دیا ادھر غلام رسول کی بیوی کا کیس اس نہج پہ پہنچ گیا کہ ڈاکٹر ماں یا بچے میں سے صرف ایک کو بچا سکتے تھے اب آپ انصاف سے بتایے گا کہ اس قصے میں مظلوم بیچارے اہل خانہ ہیں یا گھر کی معصوم چھ سات سالہ بچی کا قاتل مالی.؟
یہ میری آنکھوں دیکھے وہ چند بڑے اور دل دہلا دینے والے صدمات ہیں جو ملازمین کے چھچھورے پن اور کمینگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور باقی چھوٹی موٹی ہرامزدگیاں تو یہ ملازمین کرتے ہی رہتے ہیں ایک ثناء نامی ملازمہ تو اتنی دیدہ دلیر اور جنسی درندگی کی انتہا وں پہ تھی کہ اس نے گھر کے ایک نہیں دو نہیں تین تین مردوں سے تعلقات قائم کر رکھے تھے اور گھر سے باہر اس کے مردوں سے تعلقات کا کوئی حساب ہی نہ تھا.روپے پیسے چرانا گھر کی اشیاء چرانا تنخواہ کے علاوہ بیجا خواہشات کا انبار مالکوں کے سر پہ لاد دینا تو ان کے نازو ادا کے زمرے میں آتے ہیں.
پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں میں گلشن پٹھانی کو سلام پیش کرتی ہوں جس نے میری میڈیکل کی پڑھائی کے دوران اور میری جاب کے دوران میرے گھر اور بچوں کو گھنے سایہ دار درخت کی طرح سنبھالا
گلشن
ماں نہ تھی
مگر
ماں سے بڑھ کر تھی
شمیم کو سلام پیش کرتی ہوں جس نے میری چھوٹی بیٹی کو حد سے زیادہ پیار دیا شمایلہ کو سلام پیش کرتی ہوں جس نے بیٹی بن کر ہم سب کی سیو ا کی.
مجھے تو زندگی میں اچھے سے اچھے لوگ اللہ کی برکت سے نصیب ہوے مگر آج کا کالم ان بدنصیب اور مظلوم لوگوں کی حمایت میں ہے جنہیں ایسے خرانٹ، مکار، نوسر باز، چور اور جھوٹے ملازمین مل ہی نہیں جاتے ان کی زندگیوں میں زہر گھولنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے. نہیں دیتے ہم سب کا رب محافظ ہو آمین ثم آمین
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
drpunnamnaureen@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International