rki.news
تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com
توہم پرستی اسلام میں ممنوع ہے۔اگر ہم قرآن و حدیث سے رہنمائی لیں تو یہ ناممکن ہے کہ ہم توہم پرستی پر قائم رہ سکیں۔توہم پرستی سے مراد یہ ہے کہ خوف یا جہالت کی وجہ سے غیر عقلی عقائد پر یقین رکھناہے۔اس سے لوگوں کاایمان ضائع ہو جاتا ہے کیونکہ قرآنی تعلیمات چھوڑ کر توہم پرستی کواپنایا جاتا ہے،اس لیے ایمان ضاٸع ہو جانے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔توہم پرستی حق کو قبول کرنے میں رکاوٹ بن جاتی ہے اور توہم پرست منفی خیالات کا شکار ہو جاتے ہیں،جس سے بات خودکشی تک جا پہنچی ہے۔بے بنیاد خوف،اندیشہ یا خیال پریقین کر لینا توہم پرستی کہلاتا ہے۔توہم پرست افراد کی زندگی اذیت کا شکار ہوجاتی ہے۔توہم پرستوں کے نزدیک کالی بلی کا راستہ کاٹنا نقصان کا سبب بن جاتا ہے۔کئی افراد بہت ہی اچھے کام اس وجہ سے روک دیتے ہیں کہ کالی بلی نے ان کا راستہ کاٹ لیا ہوتا ہے۔ایک واقعہ بیان کرناضروری ہےکہ ایک دفعہ ایک ٹریکٹر بجلی کے پول سے ٹکرایاجس کی وجہ سے اس کی چھت ٹوٹ گئی،اس کی وجہ ٹریکٹرڈراٸیورنے یہ بیان کی کہ کالی بلی نے میرا راستہ کاٹ لیا تھا۔اس کو سمجھانے کی کوشش کی تواس نے جواب دیاکہ آپ کوکچھ معلوم نہیں ہے،مجھے علمانے بتارکھا ہے کہ کالی بلی جب راستہ کاٹے تولازمانقصان اٹھانا پڑتا ہے۔بہت سمجھانے کی کوشش کی مگرکامیابی نہ مل سکی۔پتا نہیں اس کو کون سے علماء نے ایسی اعلی تعلیمات دی تھیں۔اسی طرح آۓ روز کیٸ ایسے افراد سے واسطہ پڑتا رہتا ہے جو الو کی نحوست سے پریشان ہوتے ہیں۔حالانکہ کئی ممالک میں الو کوعقل کی نشانی سمجھا جاتا ہے،الو نہ منحوس ہے اور نہ عقل ودانش میں انسانوں سے برتر۔جس طرح مشرق والے نحوست سے پریشان ہیں اسی طرح مغرب والے بھی کیٸ نحوستوں کا شکار ہیں۔مثال کے طور پر مغرب میں 13 کاہندسہ منحوس سمجھا جاتا ہے۔کیٸ ہوٹلوں میں کمرہ نمبر 13 نہیں ہوتا بلکہ اس کی جگہ پر 12 اے لکھ دیا جاتا ہے،تاکہ توہم پرست افرادنحوست سےپریشان نہ ہوں۔کیٸ بلڈنگزبناتے وقت بھی تیرہ کا ہندسہ لکھنے سے گریز کیا جاتا ہے۔اس سے یہ مراد نہ لیا جائے کہ پورا مغرب ایسی نحوستوں کا شکار ہے،جس طرح کہاجا سکتا ہے کہ پورا مشرق کالی بلی جیسی نحوستوں کا شکارنہیں ہے۔مغرب میں بھی تعلیم یافتہ یاکھلے ذہن کے افراد ایسی نحوستوں سے کوسوں دور بھاگتے ہیں۔برصغیر میں نحوستوں کاشکار اس لیے بھی زیادہ پائےجاتے ہیں کہ یہاں ہندو کیٸ قسم کی نحوستوں کا شکار ہیں،ان کی باتوں سے کمزور ایمان والے افراد بھی متاثر ہو جاتے ہیں۔تعلیم انسانی شعور کو جلا بخشتی ہے اور قرآنی تعلیمات انسان کواعلی شعور عطا کرتی ہیں،اس لیے کہا جاسکتا ہے قرآن سے منور ذہن اور علم سے روشن زہن بے شمار قسم کی توہم پرستی سے بچا رہتا ہے۔اسلام ایک کامل دین ہے،اس میں تمام مسائل کا حل پایا جاتا ہے۔اللہ پاک پر کامل یقین انسان کو بڑے مصائب و آلام سے بچا دیتا ہے۔دین سے دوری بھی توہم پرستی کی ایک اہم وجہ بتائی جاتی ہے،کیونکہ اسلام کی تعلیمات روز روشن کی طرح واضح ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ توہم پرستی ایک بے بنیاد چیز ہے،اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
زمانہ قدیم میں بھی توہم پرستی زیادہ نظر آتی ہے۔اسلام سے قبل تیروں کے ذریعے فال نکالی جاتی تھیں اور اس پر عمل بھی کیا جاتا تھا۔بعض تیروں پر لا اور بعض پر نعم لکھا ہوتا تھا۔لایعنی “نہیں”کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ اس کام سے رک جانا چاہیے اورنعم یعنی”ہاں”کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ یہ کام کرنا چاہیے۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسی فال نکالنے والوں کے پاس جانے سے منع کر دیا تھا اور ارشاد فرمایا تھا کہ اس سے ایمان ضائع ہو جاتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ کسی بھی چیز میں فی نفسہ کوئی نحوست نہیں ہوتی۔”حکیم بن معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ کسی بھی چیز میں کوئی نحوست نہیں۔گھر،عورت اور سواری سے برکت ہوتی ہے“۔(ترمذی)جس طرح آئے روز ایسے افرادملتے ہیں،جن کا کہنا ہوتا ہے کہ کئی عورتیں منحوس ہیں لہذا ان سے شادی نہیں کرنی چاہیےیا فلاں آدمی اگر مل جائے تو کام ہو جاتا ہے اور فلاں آدمی کے ملنے سے انسان کا ہوتاہواکام بھی رک جاتا ہے۔اسلام ان چیزوں سے منع کرتا ہے۔ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوتابلکہ یہ شیطانی وساوس ہوتے ہیں۔ایک اور نحوست جو کمزور ایمان والوں میں پاٸ جاتی ہے وہ صفر کے مہینے کو منحوس سمجھنا ہوتا ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے”حضرت جابر بن عبداللہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،کہ ماہ صفرمیں بیماری،نحوست اوربھوت پریت وغیرہ کا کوٸ نزول نہیں ہوتا“(مسلم شریف)کیونکہ اس وقت لوگوں کا یہ ماننا ہوتا تھا کہ اس مہینے میں بیماریاں نازل ہوتی ہیں اور بھوت پریت اترتے ہیں جو کہ لوگوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح بتا دیا کہ ایسی باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔بعض لوگ ذہنی امراض کو بھی جن یا بھوتوں کے اثرات سمجھ لیتے ہیں،وہ افراد باقاعدہ علاج کرانے کی بجائے جھاڑ پھونک کا سہارا لیتے ہیں۔جس سے فائدہ تو کچھ نہیں ہوتا لیکن نقصان زیادہ ہو جاتا ہے۔کبھی کبھار لوگوں کا یہ ماننا بھی ہوتا ہے کہ جادو ان پر ہو چکا ہے۔حالانکہ ان کے یہ خالی وہم ہوتے ہیں۔اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جن یاجادو کا وجود نہیں بلکہ ان کا وجود قرآن سے ثابت ہے۔ان سے بچنے کے لئے قرآن و حدیث میں واضح ہدایات موجود ہیں۔قرآن کریم کی آخری تین سورتیں جادو کا توڑ کرتی ہیں او ساتھ ہی عام توہم پرستی سے بھی بچاتی ہیں۔ایسی کیٸ تعلیمات قرآن و حدیث میں عام ملتی ہیں،جن سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔قرآن وحدیث سے صرف توہم پرستی سے نہیں بچا جا سکتا بلکہ ہرمسٸلہ کا حل اسلام میں موجود ہے۔
توہم پرستی اور نحوست جہاں ایمان کی دشمن ہیں وہاں سرمایہ بھی ضاٸع ہو جاتا ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ اہل علم افراداورخصوصا مشائخ و علماء توہم پرستی کوختم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ان کی تبلیغ سے کئی افراد کا ایمان بچ سکتا ہے۔علماء اور مشائخ کی تعلیمات عام مسلمان آسانی سے قبول کر لیتا ہے۔عام مسلمانوں کو نصیحت کرنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالی کی ذات آپ کے لیے کافی ہے۔فضول قسم کی توہم پرستی اذیت کا شکار تو کر لیتی ہے،کوئی مسائل کا حل نہیں کرتی۔قرآن وحدیث سے دوری توہم پرستی میں اضافہ کرتی ہے۔توہم پرست افراد بعض اوقات ایسے اعمال کرنے پر بھی مجبور ہو جاتے ہیں،جو شرک کی حدود تک جا پہنچتے ہیں۔ہمیں قرآن وحدیث کے ساتھ جدید(دنیاوی) تعلیم بھی حاصل کرنا ہوگی،تاکہ فضول قسم کی توہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی سے بچا جا سکے۔توہم پرست افراد میں کیٸ قسم کے وہم پاۓ جاتے ہیں،مثال کے طور پر کوےکا منڈیرپربیٹھنا کسی مہمان کی نشانی سمجھا جاتا ہے،مرغی کا اذان دینا بھی نحوست کی نشانی سمجھا جاتا ہے،اسی طرح کی نحوستیں عوام الناس میں رچ بس گئی ہیں۔ایسی توہم پرستانہ باتیں نقصان کا سبب بنتی ہیں۔
Leave a Reply